تطویل

( تَطْوِیل )
{ تَط + وِیل }
( عربی )

تفصیلات


طول  طَوالَت  تَطْوِیل

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٩٢ء، میں "تحفۃ الاحباب" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - طوالت، درازی، طول دینا، لمبا کرنا، بڑھانا۔
"تطویل بیان جو بسیار نویسی کا ایک حد تک لازمی نتیجہ ہے ان کے یہاں نہیں پائی جاتی۔"      ( ١٩٥٣ء، حیات شیخ عبدا لحق محدث دہلوی، ٣٠٥ )
٢ - [ تجوید ]  حرکات و مدات کو حد سے زیادہ کھینچنا۔ (نورانی قاعدہ، 29)۔
٣ - [ معانی و بیان ]  کلام میں مدعا و مقصد کے لیے زاہد الفاظ کا استعمال۔
"اگر لفظ مدعا سے زائد ہو اور کچھ قائد نہ دے تو اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ لفظ زائد متعین ہو اسے تطویل کہتے ہیں . تطویل میں طوالت کے لیے نکتہ ضرور ہوتا ہے . اور تطویل کبھی تکرار لفظی و معنوی دونوں سے پیدا ہوتی ہے اس طرح کہ ایک لفظ کی بغیر کسی نکتے کے تکرار کی جاتی ہے۔"      ( ١٨٨١ء، بحرالفصاحت، ٦٨٦ )