لف

( لَف )
{ لَف }
( عربی )

تفصیلات


لفف  لَف

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم مصدر ہے۔ اردو زبان میں بطور اسم اور گاہے صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٦٤ء کو "تحقیقاتِ چشتی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - لپیٹنے کا عمل، ملفوف کرنا، لپیٹنا، پیچیدہ کرنا (نشر کی ضد)۔
"لف کے لغوی معنی لپیٹنے کے اور نشر کے لغوی معنی پھیلانے کے ہیں۔"    ( ١٩٨٥ء، کشاف تنقیدی اصطلاحات، ١٥٧ )
٢ - [ بدیع ] صفت لف و نشر کا پہلا جزو یعنی کلام میں چند چیزوں کا بیان کرنا، چند چیزوں کا ایک ساتھ ذکر کرنا (جس کے بعد ان کے پھر ان کے مناسبات کا ذکر کرنا۔
"پہلے شاعر دو یا دو سے زیادہ چیزوں کا ذکر کرنا ہے، اسے لف کہتے ہیں۔"    ( ١٩٨٧ء، کشاف تنقیدی اصطلاحات، ١٥٧ )
٣ - [ طب ]  تپش ہذیان وغیرہ کو کم کرنے کے لیے مقرر طریقے سے مریض کو چادروں اور کمبلوں میں لپیٹ دینے کا عمل نیز وہ چادریں اور کمبل جن میں لپیٹا جائے۔
"٢|١ سے لے کر ١ گھنٹے تک میں لف کو دور کیا جاتا اور جسم کو خشک تولیوں کے ذریعہ خوب ملا جاتا ہے۔"      ( ١٩٤٨ء، علم الادویہ (ترجمہ)، ٨٣:١ )
٤ - [ حیوانیات ]  (انگ : Fold)
حیوانچے . کے حاشیے پر اندرونی جانب ایک لف کی وجہ سے دائری ابھار پیدا ہو جاتا ہے۔"      ( ١٩٧٩ء، حیوانی نمونے، ١٦٣ )
٥ - پہاڑ کا کھونا، گوشہ یا خلا (انگ : Fold)
"لغدار پہاڑوں . کے لف دور سے ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے کاشغری اونٹ کے کوہان۔"      ( ١٩٦٤ء، رفیق طبعی جغرافیہ، ٢٠٩ )
٦ - لپٹا ہوا، لپیٹا ہوا نیز تہہ کیا ہوا : شامل، منسلک۔
"ساڑیاں سوٹوں سے لف تھیں، سوٹ ساڑیوں میں ضم۔"      ( ١٩٩٢ء، خواجہ محمد شفیع دہلوی )