متوجہ

( مَتَوَجِّہ )
{ مُتَوَج + جِہ (کسرہ ہ مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


وجہ  تَوَجُّہ  مَتَوَجِّہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو زبان میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٩٥ء کو "دیوان دل عظیم آبادی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - توجہ کرنے والا، دھیان دینے والا، مائل۔
"نثر کی طرف وہ دراصل پاکستان آنے کے بعد متوجہ ہوئے۔"      ( ١٩٩٤ء، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، حیات و خدمات، ٧٥٦:٢ )
٢ - مہربان، نگاہ عنایت رکھنے والا، التفات کرنے والا۔
 پایا زمیں نے بزم میں خالی کسی کا جام ساقی یہ میں فدا متوجہ کدھر نہ تھا      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، میخانۂ الہام، ٦٤ )
٣ - مخاطب۔
"اس کے بعد پنجابی کے شاعر محبت کو متوجہ کر کے بولے۔"      ( ١٩٨٨ء، یادوں کے گلاب، ٣٤٤ )