تعرض

( تَعَرُّض )
{ تَعَر + رُض }
( عربی )

تفصیلات


عرض  اِعْراض  تَعَرُّض

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے ١٨١٠ء میں "طلسم نوخیز جمشیدی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - مزاحمت، روک ٹوک، رکاوٹ ڈالنا۔
"میری عملداری سے مال گزر جائے اور میں تعرض نہ کروں۔"      ( ١٩٠٢ء، طلسم نوخیز جمشیدی، ٦٥٥:٣ )
٢ - باز پرس، اعتراض، پوچھ گچھ
"ایک زمانے میں ایسے افسر سے سابقہ پڑا تھا جو نماز پڑھنے پر تعرض کرتا تھا۔"      ( ١٩٠١ء، حیات جاوید، ٤٧٥:٢ )
٣ - درمیان میں آنا، دخل دینا۔
"میں نے ان کو عموماً اپنے کام میں مصروف پایا کسی سے تعرض نہیں کرتے۔"      ( ١٩١١ء، روزنامچہ سیاحت، ٤٠١:٤ )
٤ - چھیڑنا، بے جا مداخلت۔
"انگوٹھے سے دبا کر اس میں تعرض نہ کرنا چاہیے۔"      ( ١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی، ١١٧ )
٥ - بحث کرنا، مطلب رکھنا، سروکار ہونا۔
"دیگر علمائے اسلام کے الزامی جوابات سے بہت کم تعرض کیا۔"      ( ١٩٣٨ء، حالات سرتید، ٩٩ )
٦ - فرق، امتیاز۔
"جہاں ہز کی کثرت ہوتی ہے وہاں عیب بہ قلت شمار میں نہیں آتا اور تعرض اس کا منصف مزاجوں کو نہیں بھاتا۔"      ( ١٩٢٩ء، اورینٹل کالج میگزین، اگست، ٣ )