آرام[1]

( آرام[1] )
{ آ + رام }
( فارسی )

تفصیلات


آرامیدن  آرام

یہ اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ فارسی مصدر 'آرامیدن' سے مشتق ہے اردو میں بطور اسم اور صفت دونوں طرح مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٤٣٥ء میں "کدم راؤ پدم راؤ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - ٹھہرا ہوا، ساکن، مطمئن (ذہنی یا مادی طور پر)۔
 برپا ہیں بہر سمت حوادث کے تلاطم دریا مری تقدیر کا آرام نہیں ہے      ( ١٩٥١ء، حسرت موہانی، ک، ٢٥٦ )
اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
١ - قرار، اطمینان، سکھ، چین، سکون
 در پے رہی کل تک تو بہت گردش آیام اب بند ہوئی آنکھ تو ہے قبر میں آرام      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرقع عبرت (مرثیہ)، ٣ )
٢ - راحت، آسائش، آسودگی، لطف۔
 ہے پر فضا مقام کہ دریا قریب ہے آرام ہر طرح کا ہمیں یاں نصیب ہے      ( ١٩١١ء، برجیس، مرثیہ (ق)، ١١ )
٣ - استراحت، نیند، خواب راحت، لیٹنے کی حالت، سونا۔
 بچھا ہے پلنگ آج لب بام کسی کا تڑپائے گا شب بھر مجھے آرام کسی کا      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ١٨ )
٤ - تخفیف مرض، افاقہ، شفا، صحت
 آخر مرے غم کا کہیں انجام بھی ہو گا بیمار ہوں کب سے کبھی آرام بھی ہو گا      ( مرثیہ فیض بھرت پوری، ٩ )
  • بے آرام
١ - آرام اٹھانا
سکون و راحت پانا، لطف حاصل کرنا۔ دل ہی بنیاد مصائب کی ہے ترک دل کر کے کچھ آرام اٹھا      ( ١٩٦٢ء، ہادی مچھلی شہری، صدائے دل، ٢ )
٢ - آرام اُڑنا
چین مٹ جانا، سکون ختم ہونا۔ اڑ گیا اور بھی مرا آرام حال تغیر مقتضائے مقام      ( ١٨٥١ء، مومن، کلیات، ٢٤٣ )
٣ - آرام آنا
سکون ملنا، چین پڑنا، تڑپ جاتی رہنا۔ نہ پوچھو کس قدر ہو گا عذاب آخرت اس پر شب غم جس مریض ہجر کو آرام آتا ہے      ( ١٩١٤ء، گلکدہ، عزیز، ١٢٧ )
افاقہ ہونا، شفا پانا۔"اس بدنصیب لڑکی کو کچھ کچھ آرام آنے لگا۔"      ( ١٨٩٨ء، روز الیمبرٹ، ٣٣٢ )
٤ - آرام پڑنا
چین نصیب ہونا، سکھ ملنا، بے قراری دور ہونا۔ اک گھڑی کو بھی ٹھہرتے نہیں اب قلب و جگر دل کو آرام پڑے لینے جو آئیں اکبر      ( ١٩٦٥ء، منظور رائے پوری، مرثیہ، ٩ )
٥ - آرام پکڑنا
قیام کرنا، ٹھہرنا، سستانا۔"اس دیو نے ایک جھاڑ کے نیچے آرام پکڑا۔"      ( ١٨٠١ء، داستان امیر حمزہ، ٢٠٧ )
مصیبت کے دِن کٹنے پر چین سے بیٹھنا، اطمینان کا سانس لینا۔"باپ کی جدائی سے آرام نہ پکڑا تھا کہ نوبت تیری جدائی کی پہنچی۔"      ( ١٨٣٢ء، کربل کتھا، ٧٥ )
اطمینان ہونا، تذبذب و تامل دور ہونا۔"کوئی حجت اور علامت ہم کو دکھلاءو تاکہ ہمارا دِل آرام پکڑے۔"      ( ١٨٤٥ء، احوال الانبیا، ٥٨٣:١ )
٦ - آرام پہنچانا
آرام پہنچنا کا تعدیہ ہے۔"ان کی کیا بات ہے ہمیشہ آپ تکلیف اٹھائی اوروں کو آرام پہنچایا۔"      ( ١٨٩١ء، امیراللغات، ٨٥:١ )
٧ - آرام پہنچنا
تسکین، تسلی یا تشفی ہونا، ڈھارس بندھنا، سکون یا چین ملنا۔"اپنی تکلیف سے کسی کو آرام پہنچے تو وہ تکلیف بھی آرام ہے۔"      ( ١٨٩١ء، امیراللغات، ٨٥:١ )
٨ - آرام دیکھنا
چین سکھ پانا، آسائش اٹھانا۔ نالۂ دل بے اثر تھے اشک بے تاثیر تھے عشق میں آرام، میں کسی کی بدولت دیکھتا      ( ١٨٦٠ء، کیف، آئینہ ناظرین، ١٢ )
٩ - آرام دینا
نجات بخشنا، بے چینی دور کرنا، اطمینان و سکون دینا۔"شہر اور اہل شہر کوں تمھارے فتنہ و بلا سے آرام دیا۔"      ( ١٧٣٢ء، کربل کتھا، ٢٥٥ )
آرام پہنچانا، آسائش کا خیال رکھنا، سہولتیں بہم پہنچانا۔"خدا بخش نے وہ آرام دیا کہ گھر کو بھول گئے۔"      ( ١٩٦١ء، بابائے اردو، لغت کبیر، ٢١٥:١ )
ٹھہرنے دینا، قرار دینا۔ سدا آوارگی صحرا نوردی نہ دے آرام شوق دشت گردی      ( ١٨٥١ء، مومن، کلیات، ٣٩٩ )
شفا دینا۔دوا کیے جاءو آرام دینا نہ دینا خدا کے ہاتھ ہے۔      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٨٨:١ )
١٠ - آرام رکھنا
چین سے بیٹھنا۔ ہر دم ہمہ تن گلرم رو راہ طلب ہیں آرام کبھی صورت دریا نہیں رکھتے      ( ١٩٠٦ء، دیوان تسلیم، ٢٠٥ )
١١ - آرام کرنا
قرار پکڑنا، سکون پانا، چین سے رہنا۔ بتلائے وہ کیا آرام ہے کیا جس نے نہ کبھی آرام کیا      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، ٣٤ )
سستانا، دم لینا۔"ذرا آرام کر لو تھکے ہوئے آئے ہو۔"      ( ١٨٩٥ء، فرہنگ آصفیہ، ١٤١:١ )
سونا، لیٹنا، استراحت کرنا۔ آرام کریے میری کہانی بھی ہو چکی کرنے لگو گے ورنہ عتاب و خطاب اب      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٨٥٦ )
ہم صحبت ہونا۔ مردوا مجھ سے کہے ہے چلو آرام کریں جس کو آرام وہ سمجھے ہے وہ آرام ہو نوج      ( ١٨١٨ء، انشا، کلیات، ١٩١ )
صحت بخشنا، فائدہ پہنچانا، اچھا کرنا۔"کس دوا نے آرام کیا۔"      ( ١٨٩٥ء، فرہنگ آصفیہ، ١٤١:١ )
١٢ - آرام کھونا
آسائش مٹا دینا، بے چین کر دینا۔ آرام اس سخن نے غریبوں کے کھو دیے زینب تڑپ کے رہ گئی شبیر رو دیے      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ (قلمی نسخہ)، ٦ )
١٣ - آرام کھینچنا
سکون و اطمینان کا لطف حاصل کرنا، چین پانا۔ کھینچا نہ میں چمن میں آرام یک نفس کا صیاد تیری گردن ہے خون اس ہوس کا      ( ١٧٨٠ء، سودا، کلیات، ١١:١ )
سستانا، آرام لینا۔"آرام لینا . اگلے شاعر اس کی جگہ آرام کھینچنا استعمال کرتے تھے۔"      ( ١٨٩٥ء، فرہنگ آصفیہ، ١٤١ )
١٤ - آرام ملنا
راحت نصیب ہونا، چین حاصل ہونا۔ تم جو کہتے ہو یہ باور نہیں ہوتا مجھ کو اس تسلی سے تو ملتا نہیں آرام مجھے      ( ١٩١٩ء، نقوش مانی، ٨٢ )
١٥ - آرام میں لانا
حرکت کرنے سے روکنا، بے قرار کو قرار بخشنا۔"یہ بول کر جیب کو بہت سرایا ہور اسے آرام میں لایا۔"      ( ١٨٢٤ء، انوار سہیلی، (دکنی اردو کی لغت، ٣) )
١٦ - آرام ہونا
آرام کرنا کا فعل لازم۔"آتشکی امراض بغیر اوس کے خاص علاج کے آرام نہیں ہوتے۔"      ( ١٩١٢ء، کلیات علم طب، ٤٣٠:٢ )
امن و امان قائم ہونا، (بد امنی کے بعد) سکون ہونا۔ ڈاکوں سے وہ مقام جو بدنام ہو گیا چوکی پولس کی ڈال دی آرام ہو گیا      ( ١٩٣٦ء، جگ بیتی، ٢٩ )