برہان

( بُرْہان )
{ بُر + ہان }
( عربی )

تفصیلات


برہن  بُرْہان

عربی زبان میں رباعی مجرد سے مشتق اسم ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٧٨ء میں 'غواصی' کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع   : بَراہِین [بَرا + ہِین]
١ - روشن اور واضح دلیل، قطعی ثبوت جس کے بعد ابہام یا شک کی گنجائش نہ رہے۔
 عشق میں ہیچ ہے پابندی برہان کی صلاح ماننا چاہیے ہم کو دل ناداں کی صلاح      ( ١٩٥٠ء، کلیات حسرت، ١٠٠ )
٢ - کھلی نشانی جسے بَیِّنَہ کہتے ہیں۔
'انبیاے کرام سے جو یہ مافوق العادۃ - اعمال صادر ہوتے ہیں ان کے لیے - معجزہ کا لفظ - متعدد حیثیات سے غلط ہے - بلکہ اس کی جگہ ایت اور برہان کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ٥:٣ )
٣ - [ منطق ]  وہ قیاس جو مقدمات یقینیہ یا بدیہیہ سے مرکب ہو، وہ شکل (استدلالی) جس کے صغریٰ و کبریٰ بدیہی اور یقینی ہوں۔
'ابونصر فارابی اور ارسطو میں برہان کی ترتیب اور حدود کے متعلق جو اختلافات ہیں ان کو بیان کیا گیا ہے۔"      ( ١٩١٤ء، شبلی، مقالات، ٤٩:٥ )
  • demonstration
  • proof