برگ

( بَرْگ )
{ بَرْگ }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٤٩ء میں 'خاورنامہ' میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : بَرْگوں [بَر + گوں (واؤ مجہول)]
١ - پتا، پتی۔
 ہے برگ خزاں دیدہ میں روداد بہاراں تو ہوش سے دیکھے تو یہ دیوانہ بنا دے      ( ١٩٣٢ء، نقوش مانی، ١٧١ )
٢ - پنکھڑی (گل کے ساتھ)۔
 شعر کیا ہے نیم بیداری میں بہنا موج کا برگ گل پر نیند میں شبنم کے گرنے کی صدا      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٥٨ )
٣ - سامان، زاد سفر۔
 جاتے ہیں کشاں کشاں سوے مرگ پاس ان کے نہ ساز ہے نہ کچھ برگ      ( ١٩٢٧ء، تنظیم الحیات، ١٦٩ )
٤ - سیپ کے دو ورقوں میں سے ایک، صدف پارہ۔
'ٹریڈ کنا ایک دو برگی صدف ہے جس کا ہر نصف یا برگ - چوڑا ہوا کرتا ہے۔"      ( ١٩١٦ء، طبقات الارض، ٦٨ )
٥ - نغمہ، آہنگ، سر؛ ایک ساز کا نام۔
 بڈھا یا تہیں برگ دھرپت کی پال نہالاں خیالوں کے تجھ تی نہال      ( ١٦٥٧ء، گلشن عشق، نصرتی، ٢٧ )
  • leaf
  • petal
  • provisions for journey