تاوان

( تاوان )
{ تا + وان }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے اردو میں اپنے اصل معنی اور حالت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٦٦٥ء کو 'پھول بن" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : تاوانوں [تا + وا + نوں (و مجہول)]
١ - ڈنڈ، جرمانہ، بدلا، قصاص، کفارہ۔
 ہم چلے تھے کہ کریں دل شکنی کا دعویٰ ان کو دیکھا تو رہا کچھ بھی نہ تاوان کا ہوش      ( ١٩١٦ء، کلیات حسرت، ٧٠ )
٢ - وہ رقم جو مفتوح یا شکست خوردہ سلطنت فاتح کو بطور جرمانہ یا خرچہ دیا کرتی ہے۔
'اگر روم کبھی کسی زمانے ایسا خوش حال ہو جائے کہ دیگر تمام قرضوں سے سبک دوش ہو جاوے تو اس وقت نقد تاوان جنگ کا مطالبہ کرنا ناجائز نہ ہو گا۔"      ( ١٨٩٣ء، بست سالہ عہد حکومت، ٥٣ )