آدھی

( آدھی )
{ آ + دھی }
( سنسکرت )

تفصیلات


اَردتھ  آدھا  آدھی

سنسکرت کے اصل لفظ 'اردتھ' کا اردو مستعمل 'آدھ' ہے اور اس کے ساتھ 'ا' بطور لاحقۂ مذکر لگانے سے 'آدھا' بنا اور 'ی' بطور لاحقۂ مؤنث لگانے سے 'آدھی' بنا۔ اردو میں اسم اور صفت دونوں معنی میں مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٩٥ء میں "دیپک پتنگ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مؤنث - واحد )
جنسِ مخالف   : آدھا [آ + دھا]
جمع   : آدِھیاں [آ + دِھیاں]
جمع ندائی   : آدِھیو [آ + دِھیو (واؤ مجہول)]
جمع غیر ندائی   : آدِھیوں [آ + دِھیوں (واؤ مجہول)]
١ - آدھا کی تانیث۔
 چنو لندن میں جا کر سائمن کی میز کے ریزے تمھیں آدھی مبارک ہو ہمیں ساری مبارک ہو      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ظفر علی خان، ٧٦٩ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جنسِ مخالف   : آدھا [آ + دھا]
جمع   : آدِھیاں [آ + دِھیاں]
جمع ندائی   : آدِھیو [آ + دِھیو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : آدِھیوں [آ + دِھیوں (و مجہول)]
١ - آدھی رات، آدھی رات کا وقت، رات کے بارہ یا ساڑھے بارہ بجے کا وقت یا باج۔
"دس گیارہ بجے رات تک کچریاں سی پکتی رہیں، آدھی کا عمل تھا کہ بیگم کی آواز گونجی۔"      ( ١٩٣٢ء، بیلہ میں میلہ، ٦٧ )
٢ - ایک پیسے کی تین پائی میں سے ہر ایک (جس کا سکہ برصغیر میں کوئی تقریباً بیسویں صدی کی پانچویں دہائی تک رائج تھا)۔
"کوڑی کوڑی پر جان دیتے ہیں، آدھی، آدھی جوڑ کر رکھتے ہیں۔"      ( ١٩٣٨ء، دلی کا سنبھالا، ٧٩ )
١ - آدھی بات نہ اٹھانا۔
ناگوار بات کی برداشت نہ ہونا۔ نہ اٹھے گی کسی کی بات آدھی تمہارے ناتواں و نیم جاں سے      ( ١٨٦٠ء، کیف، آئینۂ ناظرین، ١٦١ )
٢ - آدھی بات نہ پوچھنا۔
التفات نہ کرنا، متوجہ نہ ہونا۔ اسی آرزو میں گئی عمر ساری پر اس نے نہ پوچھی کبھی بات آدھی      ( ١٨٢٦ء، معروف، دیوان، ١٢١ )
٣ - آدھی بات نہ سننا
حیثیّت کے خلاف بات گوارا نہ کرنا، شان کے خلاف بات نہ سننا۔"وہ لڑکی جس نے آج تک آدھی بات نہ سنی ہو پھوپھی کا اعتراض سنتے ہی بے اختیار ہو گئی۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٦٤ )
٤ - آدھی بجنا
نصف شب ہونا، آدھی رات کا گھنٹا یا نوبت بجنا۔ اور وہ جو لکھ پتی ہے مہاجن جہان میں آدھی بجے ہے پر وہ ابھی ہے دکان میں      ( ١٨٩٧ء، نظم آزاد، ٣٧ )
٥ - آدھی جان کا ہونا
نازک ہونا، حساس ہونا۔"نواب دق نہ کرو میں آدھی جان کی ہوں کیوں مجھے زہر کھلواءو گے، مجھے معاف کرو۔"      ( ١٨٨٩ء، سیر کہسار، ٣٨١:١ )
٦ - آدھی جان کرنا
جی ہلکان کرنا، روح کو تکلیف میں مبتلا کرنا۔"اخباری کاغذ اور بھی آدھی جان کیے دیتے تھے۔"      ( ١٩٣٣ء، اودھ پنچ، لکھنو، ١٨، ٣:١٩ )
٧ - آدھی چھوڑ کر (- کے) پوری (- ساری) کو دوڑنا۔
بہت طمع کرنا، حریص ہونا۔ اگر خدا دیوے قناعت ماہ یک ہفتہ کی طرح دوڑے ساری کو کبھی آدھی نہ انساں چھوڑ کر      ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ١٠٩ )
٨ - آدھی ڈھلنا
آدھی رات گزرنا۔ آزاد لکھتے لکھتے ہی آدھی تو ڈھل گئی اور شمع لالٹین میں ساری پگل گئی      ( ١٨٩٧ء، نظم آزاد، ١١٠ )
٩ - آدھی رات اور گھر کا پروسنے والا۔
(لفظاً) آدھی رات کا وقت ہو اور بانٹنے والا اپنا تو پھر کیوں نہ فائدہ ہو، (مراداً) خوب فائدہ اٹھاءو، کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔ (خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی جگہ مستعمل) (نجم الامثال، ٣٢)
١٠ - آدھی رات بجنا۔
نصف شب کا عمل ہونا، آدھی رات کی نوبت یا گھنٹا بجنا۔"خلق خدا پڑی سوتی ہے اور آدھی رات بج رہی ہے۔"      ( ١٩١٠ء، آزاد، محمد حسین(لغت کبیر، ٢٠٦:١) )
١١ - آدھی کو چھوڑ کر (-کے) پوری (-ساری) کو دوڑنا۔
موجود کو ترک کر کے زیادہ کا لالچ کرنا، قناعت نہ کرنا۔ پا مثل نیمۂ خط پرکار توڑ کے ساری کو دوڑیے نہیں آدھی کو چھوڑ کے      ( ١٨٧٨ء، سخن بے مثال، ١٢٤ )
١ - آدھی رات کو جماہی آئے شام سے منہ پھیلائے
وقت سے پہلے کسی کام کی تیاری کرنے کے موقع پر مستعمل۔(خزینۃ الامثال ٣٨؛ نجم الامثال، ٢)
٢ - آدھی (کو) چھوڑ ساری کو جاوے (-دوڑے) آدھی رہے (-ملے) نہ ساری پاوے۔
جو شخص موجود کو چھوڑ کر زیادہ کی طرف جاتا ہے وہ موجود کو بھی کھو بیٹھتا ہے، لالچی ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہے۔"ایسا نہ ہو کہ دوبارہ انتخاب ہو تو وہی مثل صادق آئے کہ آدھی چھوڑ ساری کو جاوے، آدھی ملے نہ ساری پاوے۔"      ( ١٩٧٣ء، روزنامہ جنگ، کراچی، ٤ اگست، ٥ )
٣ - آدھی کے بیر بھی کوئی اس کے ہاتھ سے نہ کھاوے
"کسی سے بہت زیادہ کراہت اور نفرت کے موقع پر اس کی تحقیر کے لیے مستعمل۔" (خزینۃ الامثال، حسن شاہ، ٤٠)