بولی

( بولی )
{ بو (واؤ مجہول) + لی }
( سنسکرت )

تفصیلات


بروٹین  بولنا  بولی

سنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر بولنا سے مشتق صیغہ ماضی مطلق مونث غائب ہے اور اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٣٩ء میں "طوطی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : بولِیاں [بو (واؤ مجہول) +لِیاں]
جمع غیر ندائی   : بولِیوں [بو (واؤ مجہول) +لِیوں (واؤ مجہول)]
١ - آواز، وہ صدا جو کسی جاندار کے بولنے سے پیدا ہو۔
" پھیپھڑوں کی ٹکر سے پیدا شدہ آواز جو ہوا پر سوار ہو کر ہمارے کان میں پہنچتی ہے بولی یا زبان ہے۔"      ( ١٩٦١ء، تین ہندوستانی زبانیں، ٣١ )
٢ - زبان؛ بول چال؛ بول چال کی زبانیں۔
"ان کا لباس ان کی بولی ان کی وضع قطع سب چیزیں ہم سے الگ ہیں۔"      ( ١٩٢٣ء، طاہرہ، ٨٠ )
٣ - بول، گیت، نغمہ۔
"یہ بولیاں گاتے ہوئے جاٹ اندھا دھند بے تحاشا ناچتے ہیں۔"      ( ١٩٦١ء، ہماری موسیقی، ١٥٦ )
٤ - طعن، تشنیع، تمسخر۔ (پلیٹس)
٥ - جانوروں اور پرندوں کی آواز۔
"وہ تین بولیاں بولے گا کوئی نہ سمجھے گا۔"      ( ١٩١٠ء، آزاد، جانورستان،٩ )
٦ - وہ آواز جو گاہک نیلام میں قیمت بتانے کے وقت منہ سے نکالتا ہے۔
"دلال کو آواز دی اور کہا کہ اس لڑکی کو لے جا کر بولی لگوا۔"      ( ١٩٤٥ء، الف لیلہ ولیلہ، ٣١٢:٦ )