بھاشا

( بھاشا )
{ بھا + شا }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے ١٨٦٩ء میں "مسافران لندن" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - بولی، بول چال کی زبان۔
"وہ قدیم بھاشا جس کا رواج الہ آباد ایسوسی ایشن چاہتی ہے کہاں ہے۔"      ( ١٨٦٩ء، مسافران لندن، ٣٩ )
٢ - کسی ملک یا علاقے کی بول چال۔
 اے اہل وطن اپنے سخن سے گرماؤ کانوں میں ہیں پردیس کی بھاشاؤں سے گھاؤ      ( ١٩٣٥ء، سموم و صبا، ٣٧٢ )
٣ - موجودہ ہندی۔
 ہم نے بھاشا میں سنی ہندی سمیلن کی کتھا مگر اس میں وہ کہاں زور بیان اردو      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٢٤٨ )
٤ - ہندی زبان جو ناگری حروف میں لکھی جائے۔
"١٨٧ء میں علی گڑھ میں بھاشا سمرو ہن سبھا بنائی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ سرکاری دفتروں اور عدالتوں میں اردو کی بجائے ہندی زبان اور ناگری حروف کا رواج ہو۔"      ( ١٩٤٣ء، حیات شبلی، ٤٠١ )
٥ - ایک راگنی کا نام۔ (پلیٹس)۔
٦ - قانون، استغاثہ، درخواست۔ (جامع اللغات، 529:1)
٧ - سرسوتی دیوی کا لقب جو گویائی کی دیوی خیال کی جاتی ہے۔ (پلیٹس)