پنڈا

( پِنْڈا )
{ پِن + ڈا }
( سنسکرت )

تفصیلات


پنڈک  پِنْڈا

سنسکرت میں اسم 'پنڈک' سے ماخوذ 'پنڈا' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٩٥ء کو 'دیپک پتنگ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : پِنْڈے [پِن + ڈے]
جمع   : پِنْڈے [پِن + ڈے]
جمع غیر ندائی   : پِنْڈوں [پِن + ڈوں (و مجہول)]
١ - جسم، بدن، شریر۔
'تیسرے دن دیکھتے ہیں تو موتیا پنڈے پر صاف جھلک رہی ہے۔"      ( ١٩١٧ء، سنجوگ، ٥٦ )
٢ - جسامت، حجم۔
'اس کتاب کا پنڈا بھی موٹا اور بات بھی موٹی۔"      ( ١٩١٦ء، خطوط نویسی، ٧٨ )
٣ - گولا، بھنڈا، تھوا (خصوصاً تمباکو کا)۔
'مرزا جی نے اگر تمباکو کا پنڈا کہا تو حکیم جی نے اُبلا ہوا انڈا۔"      ( ١٩٣٢ء، اخوان الشیاطین، ٢٩٢ )
٤ - [ ہندو ]  شہد اور تل ملی ہوئی کھیر وغیرہ کا گول لوندا جو شرادھ میں پتروں کے نذر کیا جاتا ہے۔"
'کنوار کے مہینے میں جب پتریگیہ کے دن آتے ہیں تو پنڈے چاولوں کے بنا کر اور دودھ ملا کر - پتروں کے نام چڑھاتے ہیں۔"      ( ١٨٤٨ء، توصیف زراعات، ٧٥ )
٥ - مٹی کا تھوا، رسی کا گول بنڈل یا گولا، پیچک؛ کھانے کا لوندا یا گولہ۔ (پلیٹس)۔
٦ - سوت کا گولا۔
'سالگرہ کے سوت کے پنڈے میں قمری اعتبار سے - اکہترویں گانٹھ لگ گئی تھی۔"      ( ١٩٦٥ء، چارناولٹ، ٣٦ )
  • body person