چاٹ

( چاٹ )
{ چاٹ }
( سنسکرت )

تفصیلات


چِشْٹ  چاٹْنا  چاٹ

سنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر چاٹنا سے مشتق حاصل مصدر ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧١٨ء میں "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : چاٹیں [چا + ٹیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : چاٹوں [چا + ٹوں (واؤ مجہول)]
١ - گزک؛ چٹپٹی چیز جسے چکھ کر زبان چٹخارا لے، اُبلے ہوئے چنے یا مسالے دار دہی بڑے وغیرہ؛ امرود یا مختلف پھلوں میں مسالا ملا کر تیار کیا ہوا مرکب۔
"چاٹ پکوڑے سڑک پر کھڑے ہو کر کھانے کی بجائے کسی شاندار ریستوران میں کھا کر اور ہی لطف آتا ہے۔"      ( ١٩٦٢ء، معصومہ، ١٨٨ )
٢ - لذت، مزہ۔
'وہ نمائش ترکیبوں دھوم دھڑکے کی چاٹ دے کر ان پانچوں گواہوں سے اپنے موافق گواہی دلوا لیتے۔"      ( ١٩١٥ء، گلدستہ پنچ، ٥٣ )
٣ - مزہ لینے کا ذوق یا شوق، لذت حاصل کرنے کی عادت۔
 مے خواری وہ آفت ہے جسے پڑ گیا چسکا یہ چاٹ کبھی تابہ قیامت نہیں جاتی      ( ١٩١٧ء، دیوان آصف سابع، ١١٩:٣ )
٤ - عادت، لپکا۔
 اوس ترک کو جو مشق ستم کی نئی ہے چاٹ تلوار کو چٹاتا ہے پتھر تمام رات      ( ١٩٠٠ء، دیوان حبیب، ٦٧ )
٥ - لالچ، ہوس، نفع پانے یا لطف اٹھانے کی خواہش، چسکا۔
"ثروت و حکومت کی چاٹ بری ہوتی ہے۔"      ( ١٩٢٦ء، حیات فریاد، ١٤٧ )
٦ - غذا، کھانے اور چٹ کر جانے کی چیز۔
"خزانہ سب مسلمانوں کا قوت غریبوں کا ہے، نہ چاٹ شیطان کے بھائیوں کی۔"      ( ١٨٤٤ء، ترجمۂ گلستان، حسن علی، ٢٢ )
٧ - ایک دوا جو شکاری جانور کو شکار پر جانے سے پہلے کھلائی جاتی ہے جس سے اس کو بھوک خوب لگتی ہے اور رغبت سے شکار کو مارتا ہے۔ (صیدگاہ شوکتی، 97)