تصنع

( تَصَنُّع )
{ تَصَن + نُع }
( عربی )

تفصیلات


صنع  تَصَنُّع

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٩٣ء کو قائم کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - بناوٹ، تکلف، نمود و نمائش، دکھاوا۔
"ان جوابات میں کسی قسم کا کوئی مزاح کوئی تصنع یا کوئی غلط بیانی قطعاً نہیں ہے۔"      ( ١٩٣٨ء، بحر تبسم، ٢٠٢ )
٢ - [ قانون ]  مکر، دھوکا، تلبیس، تبدیل۔ (نوراللغات)
٣ - آرائش ظاہری۔
 صدائے صدق کو کیا کام ہے تصنع سے نہیں ہے خانۂ دل کو ضرورت درباں      ( ١٩٠٨ء، رباعیات امجد، ٤:١ )
٤ - بناؤ سنگار، تکلف بے جا۔
"تصنع اس تکلف زاسد کا نام ہے جو قدرتی خوبیوں پر پردہ ہو جاتا ہے۔"      ( ١٩٠٥ء، مضامین چکبست، ٨٢ )
  • تَکَلّبف
  • دِکھاوا