احتجاب

( اِحْتِجاب )
{ اِح + تِجاب }
( عربی )

تفصیلات


حَجاب  اِحْتِجاب

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب، افتعال سے مصدر ہے۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں ١٨٥١ء کو "ترجمہ عجائب القصص" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
١ - پردہ نشینی، چھپنا، خصوصاً عورتوں کا نامحرم سے پردہ۔
 طاعونیوں کو زحمت نقل مکاں نہ ہو عورات گھر میں بیٹھی رہیں احتجاب سے      ( ١٨٩٨ء، نظم بے نظیر، ١١٥ )
٢ - رسائی میں حائل اور مانع ہونے کی کیفیت، پردہ، حجاب۔
 خلوت دل میں ذرا سجادہ عرفاں بچھا بند کر آنکھیں نظر آ جائے راز احتجاب      ( ١٩١٠ء، صحیفہ ولا، عزیز لکھنوی، ١٥٤ )
٣ - [ نجوم ]  کسی ستارے کا چاند کے پیچھے یا کسی جرم فلک کا دوسرے جرم فلکی کے پیچھے چھپ جانا۔
 وہ زباں جس سے عیاں قدرت کے تھے جر ثقیل وہ زباں جو تھی کلید گنج علم احتجاب      ( ١٩١٠ء، صحیفہ ولا، عزیز لکھنوی، ١٥٠ )