حجاب

( حِجاب )
{ حِجاب }
( عربی )

تفصیلات


حجب  حِجاب

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اسم مستعمل ہے ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : حِجابات [حِجا + بات]
جمع غیر ندائی   : حِجابوں [حِجا + بوں (واؤ مجہول)]
١ - نقاب، پردہ، اوٹ، آڑ، وہ پردہ جس کے پیچھے کوئی شے چھپی ہوئی ہو۔
 حد کوئی قائم نہ تھی اب تک قریب و دور میں نور مطلق جلوہ گستر تھا حجاب نور میں      ( ١٩٨١ء شہادت، ٢٥ )
٢ - ایک تِکونا رومال جو بطور نقاب استعمال کیا جاتا ہے۔
"یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ سر پہ باندھنے کے تکونے رومال کو بھی حجاب کہتے ہیں"      ( ١٩٨٥ء، جنگ، کراچی، ٥ جنوری، ٣ )
٣ - حیا، شرم، لحاظ۔
 دھریا پردہ سوز جہاں جب حجاب ہوئی حجلۂ راز کوں نس نقاب      ( ١٦٥٧ء، گلشن عشق، ١٣ )
٤ - [ تصوف ]  حجاب ان مراسم کو کہتے ہیں جو عاشق و معشوق کے وصل سے مانع ہوں۔ وہ چیز جو کہ تجلیات کے قبول سے مانع ہو۔ (ماخوذ: مصباح التعرف، 99)
"فرمایا جسے حضور قلب کا ملکہ بایں طور حاصل ہو جیسے آنکھ میں بصارت تو اسے علوم و فنون کے شغف سے بھی کوئی حجاب واقع نہیں ہو گا"      ( ١٩٧٤ء، انفاس العارفین (ترجمہ)، ٢١٢ )
٥ - کعبہ شریف کی محافظت و نگرانی کا منصب۔
"کعبہ کے متعلق پانچ بڑی خدمتیں تھیں . چہارم حجاب۔ یعنی کعبہ کی حفاظت کا عہدہ"      ( ١٨٧٠ء، خطبات احمدیہ، ٥٣٤ )
٦ - [ طب ] جسم کا کوئی پردہ یا جھلی۔ (مخزن الجواہر)
٧ - ایک غشائی اور عضلاتی پردہ جو شکم و سینہ کے درمیان آڑے طور پر واقع ہے اور آلات غذا مثلاً معدہ و جگر کو اور آلات تنفس مثلاً پھیپھڑوں وغیرہ کو اعضاء صدر سے جدا کرتا ہے اور تنفس میں مدد دیتا ہے۔
"حجاب سے مراد وہ پردہ ہے جو سانس اور خوراک کی نالی کے درمیان حائل ہوتا ہے جسے اصطلاح میں ذیافرغما کہتے ہیں"    ( ١٩٤٣ء )
٨ - وفات رحلت، موت۔
"ایک حدیث میں موت کو بھی حجاب قرار دیا گیا ہے"      ( ١٩٨٤ء، اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ٧٥٩ )
  • a veil;  a curtain;  concealment;  modesty
  • bashfulness
  • shame;  night