عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسمِ فاعل 'رابط' کے ساتھ 'ہ' بطور لاحقۂ تانیث لگائی گئی ہے۔ اردو میں بطور اسم مذکر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٢٧ء میں "حصراتِ خمس" برادر سید محمود میں مستعمل ملتا ہے۔
"ہڈیاں، جسمی ریشے اور رابطے، پر، بازو جوڑ ہڈیوں کے جوڑ، مقاصل سب کی ترکیب ایسی ہوتی ہے جو انہیں اڑان کے لیے خاص طور پر موزوں بنا دے"
( ١٩٥٤ء، حیواناتِ قرآنی، ١١٠ )
٢ - باندھنے یا کسنے کی رسی نیز زنجیر۔ (پلیٹس)
٣ - کسی جملے کے دو اجزا کو ملانے نیز فعل اور فاعل کے تعلق کو ظاہر کرنے والا نشان۔
"ایسے دوجملوں کے بیچ میں رابطہ لاتے ہیں جو آپس میں متقابل یا ایک دوسرے کی ضد ہوں"
( ١٩١٤ء، عبدالحق، اردو قواعد، ٣٤٦ )
٤ - تعلق، علاقہ، نسبت۔
لذت ذبح ملے تادم محشر یارب کبھی موقوف نہ ہو رابطہ گردن وتیغ
٥ - بندش، بندھائی، ٹھکائی۔
"اس طرح کے کلیٹی رابطے انصراف کو کم ضرور کر دیں گے"
( ١٩٤١ء، تعمیروں کا نظریہ اور تجویز، ٦٨٧:٢ )
٦ - ہم نشینی، ساتھ مل کر بیٹھنا، گھل مل جانا۔
"مزدوجیت اور دفع دراصل ایک ہی مظہر کا حصہ ہیں۔ آج کل عموماً اس مظہر کا رابطہ کہتے ہیں"
( ١٩٤٧ء، مینڈلیت )