اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - میل جول، گہری دوستی، قریبی تعلقات۔
"سنجوگ کا کیسا پیارا ڈھنگ نکالا تھا، مگر قسمت نے سارا کھیل بگاڑ دیا۔"
( ١٩٣٨ء، شکنتلا، اختر حسین رائے پوری، ١٥٢ )
٢ - بندھن، ملاپ۔
"شادی زندگی بھر کا سنجوگ ہے۔"
( ١٩١١ء، نشاطِ عمر، ٢١٨ )
٣ - موقع، اتفاق۔
"میں اِسی مارے کدھی پوچھنے یا چھنے کا ناؤن بھی نہیں لیتی ہونگی یہ بھی ناجانے کیا سنجوگ تھا۔"
( ١٩١٠ء، راحت زمانی، ٤٢ )
٤ - مقامِ اتصال، سنگم۔
"یہاں فطرت اور تاریخ کا وہ سنجوگ ہے جو انہیں پسند تھا۔"
( ١٩٨٤ء، گردِارہ، ٨٩ )
٥ - مباشرت، مواصلت، اختلاط۔
"جنسی تولید سنجوگ کے ذریعہ قدرت کا کارخانہ عجیب تماشا گاہ۔"
( ١٩٦٩ء، سائنس اور فلسفہ کی تحقیق، ١١١ )
٦ - [ نباتیات ] دو (بظاہر) مماثل خلیوں کی مواصلت، زیرگی (جس سے تیسرے کی تولید ہو)۔
"ان فنجائی میں جنسی افزائش جس طریقے سے ہوتی ہے اسے سنجوگسیا کا نجوگیشن کہتے ہیں۔"
( ١٩٧٠ء، فنجائی اور مشابہ پودے، ١٩٩ )
٧ - اختلاط، ضم ہونا، پیوستگی، امتزاج۔
"خسرو کی تحریک . جس سے اردو اور فارسی کا سنجوگ عمل میں آیا، اس کا ایک طریق یہ تھا کہ خسرو نے مصرعہ اول فارسی میں اور مصرعہ ثانی اردو میں لکھا۔"
( ١٩٨٥ء، اردو ادب کی تحریکیں، ١٦٥ )
٨ - دن رات ملنے کا وقت، دونوں وقت کا ملنا، دن اور رات برابر ہونے کا وقت۔
"دیکھو دن رات کا ہے کیا سنجوگ۔"
( ١٩٣٦ء، جگ بیتی، ١١ )
٩ - قسمت، نصیب۔
"کُھلی ہواؤں کا شیدائی گھر گرہستی کے چکر میں پڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن سنجوگ کو کون ٹال سکتا ہے۔"
( ١٩٨٨ء، قومی زبان، کراچی، مارچ، ٤٥ )
١٠ - رشتہ، نسبت۔
"لیکن سب ہی کا خیال تھا کہ منجھلے بھیا کا سنجوگ تو پنجاب سے آیا ہی سمجھو۔"
( ١٩٨١ء، چلتا مسافر، ٢٣٠ )
١١ - [ سراغ رسانی ] ہم خیال، ہم پیشہ۔
"اگر ممکن ہو تو برابر کا سنجوگ ہونا چاہیے۔"
( ١٨٩٢ء، اصولِ سراغرسانی، ١٢٤ )
١٢ - [ کنایۃ ] ہتھیار، حرب و ضرب کا سازو سامان۔
"میں ان حرامزادوں سے لڑونگی یہ فرما کر سلح سنجوگ سے آراستہ ہویں۔"
( ١٩٠٤ء، آفتاب شجاعت، ٤٧٥:٤ )
١٣ - اتحاد، معاہدہ یا دو شخصوں کا آپس میں معاہدہ کرکے تیسرے پر حملہ کرنا، نقطۂ اعتدال: لیل و نہار؛ حادثہ، سانحہ، واقعہ۔ (پلیٹس؛ جامع اللغات، فرہنگِ آصفیہ)
١٤ - ہم آہنگی، مہارت، فنکاری۔
"مترجم کی ہندی اور اردو پر غیر معمولی قدرت اور ان دونوں کا سنجوگ کم از کم ایک بار ایسی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔"
( ١٩٨٤ء، تنقید و تفہیم، ١٢٣ )