حرم

( حَرَم )
{ حَرَم }
( عربی )

تفصیلات


حرم  حَرَم

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٩٧ء میں "تمدن عرب" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف مکان ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع استثنائی   : حَرَمَین [حَرَمَین (یائے لین)]
١ - [ مذکر ]  قابل عزت شے، مقدس چیز، احترام کے لائق، محترم، لفظ
"لفظ حرم عربی میں عموماً کل ان چیزوں پر مشتمل ہے جن کی حرمت کی جاتی ہے۔"      ( ١٨٩٧ء، تمدن عرب، ٣٧٩ )
٢ - [ مذکر ] مکے مدینے اور ان کے گرداگرد کے چند میل کا علاقہ حرم کہلاتا ہے اسے حرم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان کی عزت قائم کی ہے اور ان مقامات پر بعض افعال اور اقدامات ممنوع ہیں مثال کے طور پر یہاں جنگ نہیں ہو سکتی درختوں کو نہیں کاٹا جا سکتا نیز اس میں داخل ہونے والا ہر گزند سے محفوظ ہو جاتا ہے (جب دونوں حرم مراد ہوں تو انھیں عموماً "حرمین" کہتے ہیں)۔
"اسلامی اصطلاح میں مکے مدینے اور ان کے گرداگرد کے چند میل کے علاقے کو حرم کہتے ہیں۔"    ( ١٩٨٤ء، اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ٧٧٢ )
٣ - [ مذکر ] خانہ کعبہ کے گرداگرد کا علاقہ جہاں جنگ وغیرہ ممنوع ہے، خانہ کعبہ کی چار دیواری یا احاطہ، خانہ کعبہ۔
 بظاہر دکھائی یہی دے رہا ہے کہ یہ لوگ محو طواف حرم ہیں مگر میں کہوں گا کہ یہ الجزائر کی جانب کروڑوں کے اٹھتے قدم ہیں    ( ١٩٦٢ء، ہفت کشور، ٣٣٤ )
٤ - [ مذکر ] اسلام، مرکز اسلام۔
 ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر    ( ١٩٢٤ء، بانگ درا، ٣٠١ )
٥ - [ مذکر ] زنان خانہ، گھر کا وہ حصہ جس میں عورتیں رہتی ہیں۔
"حرم کا لفظ زنان خانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جہاں غیر مرد نہ جا سکیں۔"    ( ١٩٨٤ء، اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ٧٧٢ )
٦ - [ مذکر ] اشراف کے گھر کی عورتیں۔
"سلطان صلاح الدین نے حرم شاہی کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔"    ( ١٩٦٨ء، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، ٧٥٤:٣ )
٧ - [ مذکر ]  حضرت امام حسین کے اہل بیت۔
 سننے بھی نہ پائے تھے حرم یہ خبر یاس ناگاہ مچا شور کہ مارے گئے عباس      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، مراثی، ٧٦:٢ )
٨ - [ مونث ]  بیوی۔
"بہ نسخہ حضرت حفصہ (آنحضرت صلعم کی حرم محترم اور حضرت عمر کی صاحبزادی) کے گھر میں رکھوا دیا گیا۔"      ( ١٩٠٤ء، مقالات شبلی، ٧٣:١ )
٩ - [ مونث ]  لونڈی، باندی جس کو بیوی بنا لیا گیا ہو۔
"قیدی عورتیں عین میدان جنگ میں حرم بنا لی جاتیں ہیں حالانکہ قرآن مجید میں ان دعووں کے ثبوت میں ایک جملہ بھی موجود نہیں ہے۔"      ( ١٩١٢ء، تحقیق الجہاد، ٢٢٣ )