آسودہ

( آسُودَہ )
{ آ + سُو + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


آسُودَن  آسُودَہ

فارسی مصدر 'آسودن' سے علامت مصدر 'ن' گرا کر'ہ' بطور لاحقۂ حالیہ تمام لگانے سے 'آسودہ' بنا۔ فارسی میں حالیہ تمام ہے، اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ گاہے بطور متعلق فعل بھی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٤٩ء میں "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع   : آسُودَگان [آ + سُو + دَگان]
١ - جو آرام سے ہو، خوش دل، مطمئن
"تمام آدمی واقعاً پوری طرح آسودہ ہو گئے۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ٣، ١٣٤ )
٢ - جس کی مالی حالت اچھی ہو، خوشحال، فارغ البال۔
"اس کے چہرے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بھلا آدمی ہے اپنے گھر سے آسودہ اور اقبال مند۔"      ( ١٩٢٤ء، خونی راز، ٩٦ )
٣ - جس کا پیٹ یا جی کسی چیز سے بھر گیا ہو، سیر۔
 لذت درد سے آسودہ کہاں دل والے ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے      ( ١٩٥٧ء، تار پیراہن، ٥٠ )
٤ - آرام سے سویا ہوا، خوابیدہ، (مجازاً) مدفون۔
"ہزاروں بزرگ صاحب کمال اِس سرزمیں میں آسودہ ہیں۔"      ( ١٨٠٥ء، آرائش محفل، افسوس، ٧٥ )
٥ - پرسکون، جس میں اضطراب یا اضطرار نہ ہو۔
 شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب      ( ١٩٢٤ء، بانگ درا، ٢٨٨ )
متعلق فعل
١ - بے فکری یا خوشحالی کے ساتھ، مطمئن ہو کر، چین سے۔
 کھیا اس وقت یو نچ جو میں اتھا تو آسودہ جھگڑے تھے کچھ نہیں اتھا      ( ١٦٤٩ء، خاور نامہ، ١٣٥ )
  • دُکّھی
  • بے حال
  • In easy circumstance (in respect of)
  • well-off;  wee-to-do