حصار

( حِصار )
{ حِصار }
( عربی )

تفصیلات


حصر  حِصار

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٠٧ء کو "ولی کے کلیات" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : حِصارَوں [حِصا + رَوں (و مجہول)]
١ - دائرہ، گھیرا، حلقہ۔
"وسائل کا حصار بہ نسبت دولت کے زیادہ وسیع ہوتا ہے"      ( ١٩٨٤ء، جدید عالمی معاشی جغرافیہ، ٣٣ )
٢ - قلعہ۔
"ایک ایس ذات گرامی ہے جو اپنی جگہ پر ایک حصارِ علم و ہنر ہے"      ( ١٩٨١ء، ناتمام، ١٧ )
٣ - فصیل، شہر پناہ۔
 آج میں ہوں حصار پر تنہا او ہیں دشمنوں کی بندوقیں      ( ١٩٨٥ء، درین درین، ٣٣ )
٤ - ایک طرح کا ٹوٹکا جو بلا یا آسیب وغیرہ سے محفوظ رہنے کے لیے دعا یا عمل پڑھ کر انگلی کے شارے سے ایک خیالی دائرہ بنایا جاتا ہے۔
 چار آئنے پرشت حفاظت کی دعا ہے کہیے جو دعاؤں کا حصار ان کو بجاہے      ( ١٨٧٥ء، دبیر، دفتر ماتم، ٦٨:٦ )
٥ - پناہ گاہ۔
"جھوٹی عزتوں کی حرص و ہوس نے تیرے بندوں کہیں کا نہ رکھا . اپنے کرم کے حصار میں بچالے۔"      ( ١٩١٣ء، سی پارۂ دل، ٨ )
٦ - شمار، گنتی۔
درود شریف کے فضائل بے حد و حصار ہیں      ( ١٨٧٣ء، مطلع العجائب (ترجمہ)، ٢٢ )
٧ - [ موسیقی ]  "حجاز" راگ کی دو راگنیوں (سہ گاہ اور حصار) میں سے ایک راگنی۔
"اس کا دوسرہ شعبہ حصار آٹھ نغموں سے مرکب ہے"      ( ١٨٤٥ء، مطلع العلوم (ترجمہ)، ٣٤٤ )
٨ - [ نجوم ]  کوکبۂ قیطورس کے 37 ستاروں میں سے ایک ستارے کا نام۔
"شکم اسپ میں ستارہ ہے جس کو بطن کہتے ہیں دست راست میں جو ستارہ ہے اس کو حصار۔"      ( ١٨٧٧ء، عجائب المخلوقات (ترجمہ)، ٦٧ )
  • Encompassing
  • besieging;  a fortress
  • fort
  • castle;  fortification
  • ramparts
  • bulwarks;  enclosure
  • a fence