ٹولی

( ٹولی )
{ ٹو (واؤ مجہول) + لی }
( ہندی )

تفصیلات


ٹولا  ٹولی

ہندی زبان سے ماخوذ اسم 'ٹولا' کے آخری 'الف' کو 'ی' سے بدل کر اس کی 'تصغیر' بنائی گئی اردو میں بطور اسم مستعمل ہے ١٥٦٤ء میں حسن شوقی کے "دیوان" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم جمع ( مؤنث - واحد )
جمع   : ٹولِیاں [ٹو (واؤ مجہول) + لِیاں]
جمع غیر ندائی   : ٹولِیوں [ٹو (واؤ مجہول) + لِیوں (واؤ مجہول)]
١ - ٹولاکی تصغیر، چند افراد کا گروہ، چھوٹی جماعت، جتھا۔
"پانچ پانچ آدمیوں کی ایک ایک ٹولی بنا لو"      ( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٢٣١:١ )
٢ - تین چار انچ موٹا، فٹ سوا فٹ چوڑا اور قریب پانچ چھے فٹ لمبا بھاری قسم کا داسہ بنانے کے لیے جیلے سے کاٹا ہوا پتھر، جیلے کا ایک حصہ۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 57:1)
"باولی از سرتاپا سنگ خارا کی عظیم الشان ٹولیوں سے نہایت مستحکم بنی ہوئی ہے"      ( ١٩٧٦ء، جنگ، کراچی، ١٥، اپریل، ٣ )
  • a band
  • body