ٹونا

( ٹونا )
{ ٹو (واؤ مجہول) + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


تنتر+کہ  ٹونا

سنسکرت کے اصل لفظ 'تنتر+کہ' سے ماخوذ اردو زبان میں 'ٹونا' مستعمل ہے اردو میں اصلی معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے ١٦٣٥ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : ٹونے [ٹو (واؤ مجہول) + نے]
جمع   : ٹونے [ٹو (واؤ مجہول) + نے]
جمع غیر ندائی   : ٹونوں [ٹو (واؤ مجہول) + نوں (واؤ مجہول)]
١ - جادو، منتر۔
"بنگالے کی جادوگرنیاں جن کی آنکھوں میں جادو تھا اور باتوں میں ٹونا"      ( ١٩٥٩ء، آگ کا دریا، ١٦٦ )
٢ - ایک قسم کی گیت جو شادی بیاہ میں ڈو منیاں آرسی مصحف کے وقت گاتی ہیں جس میں دولھا سے دلھن کے ساتھ اچھے برتاؤ رکھنے کا قول و قرار لیا جاتا ہے۔
 ٹونے وہ گانی، بنتے یہ بیوی کے خود غلام مصری بھی کھاتے جوتی پہ رکھ کر یہ تلخ کام      ( ١٩٣٧ء، ظریف لکھنؤی، دیوان جی، ٢٢٧:٣ )
٣ - ٹھگوں کا مکرو فریب، مسافروں کے ساتھ دوغلی باتیں، ذومعنی کلمہ۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 182:8)
  • charm
  • spell
  • enchantment
  • necromancy
  • magic
  • witch craft;  fascination;  a marriage song