تنزل

( تَنَزُّل )
{ تَنَز + زُل }
( عربی )

تفصیلات


نزل  تَنَزُّل

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزیدفیہ کے باب تفعیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے عربی زبان سے اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٥٣ء کو "دفتر فصاحت" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - (لفظاً) اترنا، نیچے آنا، (حالت میں یا درجے میں) پستی، زوال، انحطاط۔
"زمانہ تنزل و انحطاط میں قوت حافظہ جھوجری پڑ جاتی ہے"    ( ١٩٢٣ء، عصاے پیری، ٣٤ )
٢ - عہدے میں کمی، گراؤ (ترقی کی ضد)۔
"ایک کرنل کا کسی تقصیر پر تنزل ہو گیا تھا"    ( ١٩٠٧ء نپولین اعظم، ١٧٦:٤ )
٣ - گھٹاؤ، تخفیف۔
 بڑھا کر ربط کیوں کر کم نہ منھ دکھلاے وہ مہ رو ہوا جب ماہ کامل دن پہ دن اس کو تنزل ہے      ( ١٨٥٣ء، وزیر، دفتر فصاحت، ٢٠١ )
٤ - [ تصوف ]  ایک حال یا مقام سے دوسرے حال یا مقام میں اترنا۔ (مصباح التعرف، 80)
٥ - [ جفر ]  حروف مطلوب کا دوسرے حروف سے گرا ہوا یا نیچے کے درجے میں ہونا۔
"اسی طرح تنزل کا بیان ہے مثلاً مراتب اطروف کا تنزل کہ حرف ع ہے غ کا تنزل . غ کا ق اور ق کا تنزل یا ہے"      ( ١٩٥١ء، مفتاح الجفر، ٣٤ )
٦ - حالت، انشقاق و افتراق کی طرف منتقل ہونا، پھٹاؤ، تڑخنا، گھٹاؤ۔
"فصل میں کھلے قطعات پیدا ہو جاتے ہیں جس سے زمین برہنہ اور اس میں تنزل پیدا ہو جاتا ہے"      ( ١٩٠٦ء، تربیت جنگلات، ٢١٩ )
٧ - [ طب ]  نسیج کا ناسدانہ لزوب، رخاوت، نسیخ یا بافت کی ساخت میں تبدیلی۔
"فساد، انحاط یا تنزل کی اصطلاحات کا صحیح تعین، واضح الفاظ میں ان کے لیے کچھ خاص جدود مقرر کر دینا مشکل ہے"      ( ١٩٦٣ء، ماہیت الامراض،١٠٠:١ )
  • descent
  • decline
  • diminution
  • wane
  • decay
  • falling off;  degradation