چیز

( چِیز )
{ چِیز }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اپنی اصل حالت اور اصل معنی کے ساتھ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٠٣ء کو "شرح تمہیدات ہمدانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم جامد ( مؤنث - واحد )
جمع   : چِیزیں [چی + زیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : چِیزوں [چِی + زوں (و مجہول)]
١ - شے، جنس، سامان۔
"ڈراینگ روم میں بھونپو والا آلہ فوٹو گراف مع قوالیوں نعتوں تھیٹر کی چیزوں اور غزلوں کے ریکارڈوں کے انبار کے موجود تھا"      ( ١٩٧٦ء، سالنامہ نقوش، لاہور، جنوری، ٦٤ )
٢ - زیور، جواہر، گہنا پانا۔
"کیا خدا نہ کرے بیچ ڈالنے کی نیت ہے . چیز صندوقچے نہ پڑی رہی مہاجن کے پاس رکھی رہی"      ( ١٨٦٧ء، مراۃ العروس، ١٤٣ )
٣ - گیت؛ راگ، ٹھمری، ٹپہ، غزل۔
"سکھیاں ایک صف میں کھڑی ہو کرنا ٹک کی تصنیف کی ہوئی کوئی چیز گائیں"      ( ١٩٥٧ء، لکھنو کی شاہی اسٹیج، ٩٠ )
٤ - امانت، دھروڑ۔ (نوراللغات)
٥ - حقیقت، وقعت، رونق۔
"دیکھیں تو سہی تم ہو کیا چیز? جس شخص کی یہ راہ نہ ہو وہ حکمت میں کوئی چیز نہیں"      ( ١٩٢٥ء، حکمۃ الاشراق، ١٣ )
٦ - مٹھائی شیرنی (جو بچوں کو دی جائے)۔
"اجی حضرت ہمیں تو بھوک لگی ہے، چیز دو"      ( ١٩١١ء، قصہ مہر افروز، ٣٢ )
٧ - (بڑی کے ساتھ) قرآن شریف۔
"جب بڑی چیز کہیں گی تو قرآن شریف سے مراد ہو گی"      ( ١٩٢٦ء، نوراللغات، ٥٧٦:٢ )
٨ - دوست ہم جنس، ساتھی، رفیق۔
"آپ تو ہماری چیز ہیں ہم سے بچ کر کہاں جائیں گے"      ( ١٨٩٢ء، سفرنامہ روم و مصر و شام، ١١٩ )
٩ - [ طبیعات ]  مادّہ۔ (پلٹیس)