سامان

( سامان )
{ سا + مان }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٠٧ء کو ولی کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - اشیائے ضروری، اثاثہ، چیزبست۔
"محاصرہ میں فوج کے پاس سامان رسد ختم یا تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔"      ( ١٩١٢ء، فلسفیانہ مضامین، ٥٥ )
٢ - (مجازاً) آثار، علامات، اسباب۔
 اللہ رکھے گا تو رہے گا دل و پراں اس گھر کی تباہی کے تو ساماں بہت ہیں      ( ١٩١١ء، ظہیر، دیوان، ٨٦:٢ )
٣ - انتظام، اہتمام، بندوبست۔
"وہاں تو سامان ہی دوسرے تھے۔"      ( ١٩٣٤ء، قرآنی قصے، ١١٦ )
٤ - (بول چال) ہوش، حواس، سدھ۔
"بی بی صاحب کسی طرح سامان میں ہی نہیں آتیں۔"      ( ١٩٢٣ء، عصائے پیری، ١٨٨ )
٥ - تیاری، آمادگی، تہیہ۔ (فرہنگ آصفیہ)
٦ - آراستگی، سجاوٹ، تکلف، ٹھاٹھ۔
 کس نے ملنے کا کیا وعدہ کہ داغ آج ہو تم اور ہی سامان میں      ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ١٤٣ )
٧ - ہتھیار، اوزار، جنگ کا سامان۔ (فرہنگ آصفیہ)
٨ - دنیاوی مال و متاع، تعلقات دنیاوی۔
 اضطراب دل کا ساماں یاں کی ہست و بود ہے علم انساں اس ولایت میں بھی کیا محدود ہے      ( ١٩٠٥ء، بانگ درا، ٢٦ )
٩ - تمہید، آثار، علامت۔
 یہ پریشانی مری سامان جمعیت نہ ہو یہ جگر سوزی چراغ فسانہ حکمت نہ ہو      ( ١٩٠٥ء، بانگ درا، ٦ )
١٠ - تلوار وغیرہ اوزار کے تیز کرنے کا آلہ۔ (ماخوذ نوراللغات، مہذب اللغات)
  • furniture
  • baggage
  • articles
  • things;  requisites
  • appliances;  instrument
  • tools;  provision made for any necessary