توقف

( تَوَقُّف )
{ تَوَق + قُف }
( عربی )

تفصیلات


وقف  وَقْف  تَوَقُّف

عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ عربی زبان سے اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٩٥ء کو قائم کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - (لفظاً) ٹھہرنا، قیام کرنا، رکنا؛ دیر، تاخیر۔
"میں نے اس خوبصورت سنگ مرمر کے رواق میں توقف کیا۔"    ( ١٩٢٤ء، خونی راز، ١٤٧ )
٢ - [ مجازا ] شک، شبہ، ٹھہرنے کا موہوم ارادہ یا خیال۔
 رمز راکب سے یہ آگاہ وہ صرصر رفتار گزرے گر دل میں توقف تو وہیں جائے تھم    ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٢٩ )
٣ - تامل، پس و پیش۔
 اسیر عشق نہیں بار خواہ خوں رکھتے ہمارے قتل میں اس کو عبث توقف تھا    ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٥٥٨ )
٤ - سوچ بچار، غور خوض، تامل۔
"ایک گروہ اور ہے جو آپ (حضرت حسین بن منصور حلاج) کے معاملہ میں توقف کرتا ہے۔"    ( ١٩٧٣ء، کلام المرغوب ترجمہ کشف المحجوب، ٣٠٠ )
٥ - [ طب ]  مریض کی حالت کو سمجھنا۔
"طبیب کو لازم ہے کہ ایک مرتبہ نبض کو دیکھ کر تھوڑی دیر تک توقف کرے۔"      ( ١٨٨٢ء، کلیات علم طب، ٦٥:١ )
٦ - [ فقہ ]  غور و خوض، سوچ۔
"شوکانی لکھتے ہیں کہ امام الحرمین ان میں توقف کے قائل ہیں۔"      ( ١٩٧٣ء، اصول فقہ، شاہ ولی اللہ )
٧ - [ سیاسیات ]  ایک جگہ ٹھہرا ہونا، قائم ہونا، ایک حالت پر رہنا۔
"اب ہم کو یہ تحقیق کرنا پڑا کہ یہ دوسرا مقصد کیا ہے جس کی تکمیل گورنمنٹ کو واجب ہے . خواہ توقف کی حالت میں ہو خواہ ترقی پذیر ہو۔"      ( ١٨٩٠ء، معلم سیاست، ٢٢ )
٨ - موقوف یا منحصر ہونا، انحصار، دار و مدار۔
"اس امر کے فیصلے کے لیے کہ دلیل کن مقدمات پر موقوف ہے، یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ سلسلہ بہ سلسلہ اس توقف کا سلسلہ کہاں تک پہنچتا ہے۔"      ( ١٩٠٤ء، مقالات شبلی، ٢٢:٧ )
  • stopping
  • pausing;  pause
  • cessation;  delay
  • suspension;  hesitation;  tediousness;  patience