ڈھیل

( ڈِھیل )
{ ڈِھیل }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے جو اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٩٥ء کو "دیپک پتنگ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف زمان
جمع   : ڈِھیلس [ڈھی + لیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : ڈِھیلوں [ڈھی + لوں (و مجہول)]
١ - تاخیر، دیر، وقفہ۔
 عجب نہیں تری رحمت کی حد نہ ہو کوئی گناہ کا ازل ہوں مری سزا میں نہ ڈھیل      ( ١٩٤١ء، کلیاتِ فانی، ١١٥ )
٢ - سستی، کاہلی۔
"بادشاہ چھوٹے بڑے سارے منصب داروں سے براہِ راست رابطہ قائم رکھتا تھا تاکہ انتظامی مشینری میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو۔"      ( ١٩٧٥ء، شاہراہِ انقلاب، ٤ )
٣ - غفلت، بے پروائی۔
"سال بھر کی ڈھیل میں شبراتی کی ڈھٹائی چٹان کی طرح بے حس اور اٹل ہو گئی تھی۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالامکھ، ٦٥ )
٤ - رعایت، موقع، مہلت، چشم پوشی۔
"ایسے لوگ اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے ہاں انہیں ڈھیل مل جائے اور بات ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ٥٢٤ )
٥ - آزادی، اختیار
"سلطان الغوری نے آتشیں اسلحہ کے استعمال کے سلسلے میں کچھ ڈھیل ضرور دی۔"      ( ١٩٦٨ء، اردو دائرۃ المعارف اسلامیہ )
٦ - جھول، لچک۔
"وہ سادہ(غیر ارادی) عضلات میں ڈھیل پیدا کرتی ہے۔"      ( ١٩٦٩ء، نفسیات کی بنیادیں، ٢٧ )
٧ - اڑتی ہوئی پتنگ کو حسب ضرورت اوپر بڑھانے کے لئے ڈور میں ڈور لمبی کرتے رہنے کا عمل۔
"پیچ ڈھیل کا تھا انور بڑے زوروں سے اپنی مانگ پائی پتنگ کو ڈور پلا رہا تھا۔"      ( ١٩٦٦ء، خالی بوتلیں خالی ڈبے، ١٧٧ )
٨ - پتلی، رقیق، ڈھیلی۔
 یعنی ہو رنگ و بو نہ کچھ تبدیل چھوڑ دے ان کو تو ہووے کچھ نہ ڈھیل      ( ١٧٧٤ء، رموزالعارفین، ٢٧ )