اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - کھڑے ہونے یا اٹھنے کا عمل، قائم ہونا، کھڑے ہونا۔
"برادر موصوف نے مولود شریف میں قیام کی بابت سوال کیا۔"
( ١٩٣١ء، مقالات شروانی، ٢٨١ )
٢ - برپا کرنے یا ہونے کا عمل، ظہور میں لانا، مچانا۔
"ایک خاص معاشی اور سماجی نظام کے قیام کے لیے مسلسل جد و جہد کر رہے ہیں۔"
( ١٩٤٩ء، اک محشر خیال، ٢٤ )
٣ - [ فقہ ] نماز میں کھڑا ہونا، نماز کا وہ حصہ جس میں نمازی کھڑا ہوتا ہے، قعود کی ضد۔
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا
( ١٩٣٥ء، بال جبریل، ٨٤ )
٤ - سکونت، بسیرا، ٹھہرنے کا عمل، پڑاؤ۔
"مولانا عبدالباری صاحب . ہمارے مکان پر قیام فرمایا کرتے تھے۔"
( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ٩٧ )
٥ - ثبات، استحکام، بقا، استقلال، اسقامت (تبدل کی ضد)۔
"دنیا کی کسی حالت کو ثبات اور زندگی کی کسی کیفیت کو قیام نہیں۔"
( ١٩١٩ء، جوہر قدامت، ١١١ )
٦ - قیامت۔
تری آل میں ہوں گے سارے امام ترا حکم ہے تا بروز قیام
( ١٨٣٤ء، مثنوی ناسخ، ٢٩ )
٧ - سکون، قرار، تذلزل کی ضد۔
"آخر یہ کیا بات ہے کہ حیات آگے بڑھتی چلی جاتی ہے اس کو کسی ایک حالت پر قیام نہیں۔"
( ١٩٣١ء، ارتقاء، ١٠١ )
٨ - وثوق۔ اعتماد، بھروسا۔ (مہذب اللغات)