چھلاوا

( چَھلاوا )
{ چَھلا + وا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے ماخوذ لفظ 'چھل' کے ساتھ 'اوا' بطور لاحقہ صفت لگانے سے 'چھلاوا' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ملتا ہے۔ گا ہے صفت بھی استعمال ہوتا ہے ١٧٣٩ء کو "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - جسے قرار نہ ہو، جو ابھی کہیں اور ابھی کہیں، پارے کی سی خاصیت رکھنے والا، جادو کی طرح نظر آکر فوراً غائب ہو جانے والا۔
 وہ یار پری چہرہ کہ کل شب کو سدھارا طوفان تھا تلاطم تھا چھلاوا تھا شرارا      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ١٧٤ )
٢ - شعبدہ باز، طلسم دکھانے والا، اندر جال کرنے والا۔ (فرہنگ آصفیہ)
٣ - چھل دینے والا، فریب دینے والا۔ (نوراللغات؛ علمی اردو لغت)
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : چَھلاوے [چَھلا + وے]
جمع   : چَھلا وے [چَھلا + وے]
جمع غیر ندائی   : چَھلاووں [چَھلا + ووں (و مجہول)]
١ - وہ روشنی جو قبرستان میں یا دلدلی مقامات پر دکھائی دیتی ہے یہ ہڈیوں کے فاسفورس یا گیس کے ہوا میں آنے سے پیدا ہوتی ہے (جاہل لوگ اسے بھول سمجھتے ہیں)، اگیا بیتال، غول بیابانی۔
"اس تماشے کو دیکھ کر ولی عہد نے گمان کیا کہ اس جنگل میں چھلاوا رہتا ہے پہلے ہرن بن کر میرے سامنے آیا پھر پری بن گیا"      ( ١٩٣٣ء، فراق دہلوی، مضامین، ٥٩ )
٢ - [ سیف بازی ]  حریف پر وار کرنے سے قبل پھرت کے ساتھ تلوار جھکانے اور اس کی نظر ہٹانے کا ڈھنگ۔
"اگر چھلاوا کرے تو چھری حریف کے ہاتھ پر سے اتار کر اپنا سیدھا ہاتھ اندر لا کے مٹھی کو اوپر اٹھا کے اپنا سیدھا ہاتھ جھکا دے"      ( ١٩٢٥ء، فن تیغ زنی، ٥٦ )
٣ - شوخی، چنچل پن، چلبلاپن، نازوادا۔
"ان کے سامنے بڑے تزک اور آرائش سے بن بن کر آتی ہے اور اپنے چھلاوے دکھاتی ہے کہ کسی طرح شیفتہ ہو جاویں"      ( ١٨٦٤ء، مذاق العارفین، ٢٢٣:٣ )
٤ - دھوکا، فریب۔
"قمر زمانی چھلاوا دے جاتی تھیں کسی طرح قابو میں نہ آتی تھیں"      ( ١٩٧٩ء، قمر زمانی بیگم، ٥٨ )