آسیب

( آسیب )
{ آ + سیب (یائے مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


یہ اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور اپنی اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو زبان میں مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٤٩ء میں "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : آسیبوں [آ + سے + بوں (واؤ مجہول)]
١ - صدمہ، تکلیف، مصیبت
 آئینے میں لیتے ہو جو زلفوں کی بلائیں آسیب نہ پہنچے کہیں ہاتھوں کو تمہارے      ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ١٧٢ )
٢ - جن، بھوت، چڑیل، پری، دیو، ارواح خبیثہ
 الٰہی خیر کہ خانم کو شوق سایہ ہے بلا تو یوں بھی وہ تھیں ہو نہ جائیں اب آسیب    ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٦٨ )
٣ - جن بھوت پری یا ارواح خبیثہ کا اثر یا سایہ، چشم زخم۔
"جب بچوں کے چیچک نکلتی ہے تو چیچک کو آسیب سمجھتے ہیں۔"    ( ١٩١٦ء، زنانہ میلاد، ١٦٥ )
٤ - ضرر، گزند، زد، مار۔
 جن سے آسیب کا تھا کھٹکا ان دیووں نے خوب سر کو پٹکا      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٢٨٣:١ )
٥ - آزار، بیماری، جنون، دیوانگی۔
 ہے دافع آسیب ہر اک سیب جلیل انگور کی ہیں تاک میں سب متوالے      ( ١٩٢٨ء، سرتاج سخن، ٣٠ )
  • خُوشی
  • بے خَوْف
  • Misfortune
  • trouble
  • calamity;  harm
  • injury
  • damage
  • hurt;  apprehension
  • fear