اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - راہ کی کجی، چکر، گھماؤ، موڑ۔
"یہاں سے راستہ پھیر کھاتا ہوا سب سے بلند مقام پر پہنچتا ہے۔"
( ١٩٠٣ء، چراغِ دہلی، ٤٤٣ )
٢ - دوری، فاصلہ، بعد، فرق۔
"دوسرے راستے سے دو سو میل کا پھیر پڑتا تھا۔"
( ١٩١٩ء، روزنامچہ حسن نظامی، ٣٣٨ )
٣ - پیچ، جال، فریب، پھندا۔
"اندر تھوڑا قیمہ رکھ کر مثل سموسے کے دو پھیر لپیٹیں۔"
( ١٩٣٢ء، مشرقی و مغربی کھانے، ٨٦ )
٤ - وسعت، پھیلاؤ، پورا پورا حال۔
آنچل اس دامن کا ہاتھ آتا نہیں میر دریا کا سا اس کا پھیر ہے
( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٨٨٨ )
٥ - بل، فرق، تفاوت، اختلاف۔
عاشق و معشوق و عشق اب دیکھنے کا پھیر ہے تین صورتیں نظر آتی ہیں اِک تصویر میں
( ١٩١٩ء، کیفی، کیف سخن، ٦٢ )
٦ - دور، حلقہ، احاطہ، پیٹا، گھیر۔
"کمر کا پھیر ضرورت سے زیادہ تھا۔"
( ١٩٢٨ء، مضامینِ فرحت، ١٣:١ )
٧ - دوران، چکر، گردش۔
پھیر ہے کیا مرے مقدر کا نہیں ملتا پتہ ترے گھر
( ١٩٠٥ء، دیوان انجم، ٣ )
٨ - [ مجازا ] فکر، خیال، ادھیڑ بن؛ جوڑ توڑ۔
"ایک مسجد کے نہ جانے کس پھیر میں متولی ہو گئے تھے۔"
( ١٩٤٣ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ٨ )
٩ - الجھن، چکر، الٹ پلٹ۔
"مہینہ بھر تک قرض کا پھیر رہا۔"
( ١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ١٨٩ )
١٠ - آمد و رفت، آنا جانا؛ گھراؤ۔
پپیہے کی رہ رہ کے پی پی کی ٹیر نرالا اثر ہے انوکھا ہے پھیر
( ١٩٢٤ء، دیوانِ بشیر، ١٦٢ )
١١ - واپسی، واپس کرنے یا لوٹانے کا عمل۔ (پلیٹس)
١٢ - ضمن، سلسلہ۔
"ان اعتراضات کے پھیر میں داغ پر . ذاتی حملے کیے گئے ہیں۔"
( ١٩٠٥ء، مضامین چک بست، ٩٨ )
١٣ - گچھا، لچھا؛ خم؛ محیط؛ کمی، خامی؛ نقصان، زیاں؛ بدنصیبی۔ (پلیٹس)۔
١٤ - مشکل، بکھیرا؛ تشویش، گھبراہٹ؛ انقلاب، تغیر، تبدل؛ فکر، سوچ؛ ٹیڑھا پن، کجی؛ اندازہ، تخمینہ؛ باتوں میں معنی کا فرق، ابہام، ذومعنی۔ (جامع اللغات)۔