چھاؤں

( چھاؤں )
{ چھا + اوں (و مجہول) }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ 'چھایا' کا ایک تلفظ 'چھاؤں' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٠٣ء کو "نوسرہار (اردو ادب)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - سایہ، چھاں، عکس، پرتو۔
 چھاؤں میں آ گئے جھلستے لوگ رائگاں محنت شجر نہ ہوئی      ( ١٩٧٩ء، زخم ہنر، ١٨٨ )
٢ - دو چیزوں کے درمیان خفیف مشابہت۔
"تعمیم کی چھاؤں مضمون پر نہیں پڑتی۔"      ( ١٩٢٦ء، نوراللغات، ٥٥٧:٢ )
٣ - کرن، روشنی (عموماً تاروں کے ساتھ مستعمل)۔
 چھاؤں میں تاروں کی گل تر کا مہکنا وہ جھومنا سبزہ کا وہ کھیتوں کا لہکنا      ( ١٩٢٠ء، روح ادب، ٢٥ )
٤ - پناہ حمایت، سرپوشی۔
 صد ہزاراں شکر جو ہے سکھ سوں اس کی چھاؤں میں بندہ ہور آزاد ہور شہری غریب ہور شیخ و شاب      ( ١٦٧٨ء، غواصی، کلیات، ٤٠ )
٥ - جھلک، اثر۔
"بھلے کو اس نے خود پرانی جان پہچان کی چھاؤں نہ آنے دی۔"      ( ١٩٣٩ء، محمد علی ردولوی، گناہ کا خوف، ٤ )