ظل

( ظِل )
{ ظِل }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بھی بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧٩٢ء کو "دیوان محب" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - سایہ، پرچھائیں۔
"بارِالٰہ! میں نے تو دنیا کو ظل سمجھا تھا نورِ آفتاب سے سایہ پہچانا جاتا ہے اور سایہ سے نورِ آفتاب۔"    ( ١٩٨٨ء، صدیوں کی زنجیر، ١٩٢ )
٢ - عکس، پر تو۔
"افلاطون کے نزدیک حقیقی وجود سے صرف "مثل" اور تصورات ہی بہرہ مند ہیں اور یہ عالم رنگ و بو انہی مثل کا مثنٰی یا ظل، اور سایہ ہے۔"    ( ١٩٨٧ء، فلسفہ کیا ہے، ٤٦٤ )
٣ - [ تصوف ] ظہورات اور تعنیات کو کہتے ہیں۔
"وحدتِ شہود کا بیان یہ ہے کہ وجود کائنات اور ظہور آثار و صفات مختلفہ واحد مطلق کی ذات و صفات کا ظل و عکس ہے جو عدم میں منعکس ہو رہا ہے اور یہ ظل عین صاحب ظل نہیں ہے بلکہ محض ایک مثال ہے۔    ( ١٨٨٤ء، تذکرۂ غوثیہ، ١٣٤ )
٤ - [ مہوسی ]  میل، کھوٹ۔
 صاف کیا ہو نفس سرکش سا ہے دشمن دل کے ساتھ مِس طلا ہوتا نہیں جب تک ہے اپنے ظل کے ساتھ      ( ١٩٠٠ء، دیوانِ حبیب، ٢٠٣ )
٥ - شامیانہ۔
"اور پردہ اور قنات اور شامیانہ کو ظل . لکھتے ہیں۔"      ( ١٨٤٥ء، مجمع الفنون (ترجمہ)، ١٧٧ )
٦ - خیال، نمونہ۔
 تھا جس عین کا ظل کلامِ رسل یہاں جلوہ گر تھا وہی عین کل      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، ٣٢٤ )
٧ - [ ہندسہ ]  ایک نقطہ (مرکز) سے خطوط مستقیم کھینچنا جو ایک (مفروضہ یا دی ہوئی) شکل کے ہر ایک نقطے میں سے گزر کر ایک سطح کو کاٹیں اور اس طرح ایک متناظر شکل پیدا کریں؛ سطح وغیرہ کو صرف ایک نقطے پر چھونے والا (خط)۔
"اب فرض کرو کہ ہم ایک مستوی 'س' کے نقطوں کے ظل دوسرے مستوی 'س' پر بذریعہ 'ر' ا، س، ط لے رہے ہیں۔"      ( ١٩٣٧ء، علم ہندسۂ نظری (ترجمہ)، ٥٨ )
  • shad
  • shadow