پھر

( پِھر )
{ پِھر }
( سنسکرت )

تفصیلات


پریہ  پِھر

سنسکرت سے ماخوذ مصدر 'پھرنا' کی علامت مصدر 'نا' حذف کرنے سے صیغۂ امر 'پھر' بنا۔ اردو میں بطور تعلق فعل استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٥٧ء کو "گلشنِ عشق" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

متعلق فعل
١ - بعدازاں، کسی امر کے وقوع کے بعد۔
"اس کے بعد ہون کرنے والے پنڈتوں کے سامنے پھر سمدھیوں کے آگے پھر تاریک الدنیا برہمنوں کے آگے۔"    ( ١٩١٧ء، کرشن بیتی، ١٠٧ )
٢ - بعد میں، کچھ مدت گزرنے پر؛ آیندہ۔
"چار پانچ برس کی مہمانی سمجھ لو پھر خدا جانے تقدیر میں کیا لکھا ہے۔"    ( ١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ٢٩ )
٣ - مکرر، دوبارہ۔
 کس نے سن شعر میر یہ نہ کہا کہیو پھر ہائے کیا کہا صاحب      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٤٠٧ )
٤ - تب، اس صورت میں۔
 پھر بتا دوں تجھے دردِ محبت کیا ہے مجھ پر آ جاش اگر میری طرح دل تیرا      ( ١٩١٥ء، جانِ سخن، ٦ )
٥ - قطعاً، ضرور۔
"لاکھ کام چھوڑ کر چلیں اور پھر چلیں۔"      ( ١٨٨٩ء، سیر کہسار، ٤:١ )
٦ - تاہم، اس کے باوجود۔
"زلفی گو اپنے تئیں بھیڑیا سمجھتا تھا، لیکن پھر آدمی کا بچہ تھا۔"      ( ١٩٠١ء، زلفی، ٣٢ )
٧ - مزید برآں، اس کے علاوہ۔
"پھر ستم یہ کہ صرف بھی کیا تو ایسے فضول کاموں میں کہ نہ ضرورت نہ حاجت۔"      ( ١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ١٣٢ )
٨ - اور؛ اس کے علاوہ اور کیا بات ہے، اور کیا سبب ہے۔
"رسی نہیں تو پھر کیا ہے۔"      ( ١٩١١ء، پہلا پیار، ٥٨ )
٩ - بصورتِ دیگر (ویا، کے ساتھ)
"یا پھر وہ ناواقفیت یا کاہلی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔"      ( ١٩٣٩ء، خطباتِ عبدالحق، ٤ )
١٠ - اب، اس کے بعد، اس دم۔
 نگاہ دل سے بھی پھیری جگر سے بھی پھیری پھر اور چاہتے ہو کیا کسی کا گھر لینا      ( ١٩٢٥ء، دیوانِ شوق قدوائی، ٤٣ )
١١ - پھرنا سے مرکبات میں مستعمل۔ (ماخوذ : فرہنگِ آصفیہ)۔
"کچھ دیر بعد جوں نظر حضرت کی زمین پر پڑی بے اختیار آہ مار فرمائے اللہ اللہ اے فرزندِ دلبند پھر . کہ نسل میری تجھ سے قائم رہے گی۔"      ( ١٧٣٢ )
  • conj- then
  • again
  • afterwards
  • later
  • later on
  • some other time