چھوکرا

( چھوکْرا )
{ چھوک (و مجہول) + را }
( سنسکرت )

تفصیلات


شاوک+ر+کہ  چھوکْرا

سنسکرت زبان کے لفظ 'شاوک + ر + کہ' سے ماخوذ 'چھوکرا' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٧٩ء کو "قصہ تممیم انصاری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : چھوکْرے [چھوک (و مجہول) + رے]
جمع   : چھوکْرے [چھوک (و مجہول) + رے]
جمع غیر ندائی   : چھوکْروں [چھوک (و مجہول) + روں (و مجہول)]
١ - لڑکا، امرد، نوعمر، جس کی داڑھی مونچھ ابھی نہ نکلی ہو۔
"وہ ایک نو خیز چھوکرے کی طرح اڑا اڑا پھرتا تھا"      ( ١٩٨٤ء، سفر مینا، ١٢٤ )
٢ - غلام، چیلا۔
"ہزاروں یونانی چھوکرے قسطنطینہ سمرنا اور مصر سے جہازوں میں بیٹھ کے یوانا آنے شروع ہو گئے تھے"      ( ١٩٢٨ء، حیرت، مضامین، ١١٨ )
٣ - ہوٹل یا کارخانے وغیرہ میں کام کرنے والا لڑکا۔
"چھوکرا ادب سے چائے لایا"      ( ١٩٣٨ء، حرماں نصیب، ٥١ )
٤ - زنانہ لباس پہن کر رقص کرنے والا لڑکا یا مرد۔
 یہ خوبرو چھوکرے زنان حیا فگندہ کی طرح رخت حریر ہپنے      ( ١٩٦٢ء، ہفت کشور، ١٥٥ )
٥ - بس کا کنڈکنٹر، مسافروں سے کرایہ لینے وال، ڈرائیور کا مدد گار گاڑی صاف کرنے والا لڑکا۔
"گاڑی پھر رینگنے لگی یکایک چھوکرے نے دروازے کو زور زور سے پیٹنا شروع کیا اور ساتھ ہی چیننے لگا، استاد پیچھے باون تراسی آری اے"      ( ١٩٨٥ء، ماہ نو، لاہور، جنوری، ٣٦ )
٦ - بیٹا، پسر۔
"اور کہا اے خداوند میرا چھوکرا گھر میں فالج کی بیماری سے بشدت عذاب میں پڑا ہے"      ( ١٨١٩ء، متٰی کی انجیل، ١٨ )
٧ - کم فہم، نادان، ناتجربہ کار۔
"میں برہان قاطع کا خاکہ اڑا رہا ہوں.ایسے گمنام چھوکروں سے کیا مقابلہ کروں گا"      ( ١٩٦٩ء، غالب، خطوط، ١٨٨ )