بچہ

( بَچَّہ )
{ بَچ + چَہ }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصل معنی میں ہی مستعمل ہے۔ ١٥٠٣ء میں "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : بَچّی [بَچ + چی]
واحد غیر ندائی   : بََچّے [بَچ + چے]
جمع   : بَچَّے [بَچ + چے]
جمع غیر ندائی   : بَچّوں [بَچ + چوں (واؤ مجہول)]
١ - کم سن، جس کی عمر تھوڑی ہو، لڑکا، طفل، چھوکرا۔
"بی بی خدمت کو لونڈی دیتی ہوں، ابھی بچہ ہے ناتجربہ کار ہے۔"    ( ١٩٢٥ء، وداع خاتون، ٦ )
٢ - ہر جاندار کی چھوٹی اولاد۔
"بچے گو دیکھنے میں کافی بیوقوف نظر آتے ہیں لیکن ان کے شعور کافی تیز ہیں۔"    ( ١٩٤٨ء، پرواز، ٩٤ )
٣ - نادان، ناسمجھ، ناواقف۔
"باپ مرے، بیوی مری، بچہ مرا، ایسی حالت میں تصنیف تالیف کا دماغ کب صحیح رہ سکتا ہے۔"    ( ١٩٢٣ء، عصائے پیری، ٥ )
٤ - مردک، نالائق (بیشتر تحقیر کے لیے مستعمل)۔
"میں نے ایسا پھٹکارا کہ آخر بچہ کو نادم ہو کر لکھنا ہی پڑا۔"      ( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٧٦:١ )
٥ - بزرگوں کا خوردوں سے (خاص کر) فقرا کا عام لوگوں سے کلمۂ خطاب (اکثر پیار کے موقع پر)۔
"بچہ اگر تجھے میں اپنے ساتھ لے جاؤں تو مرشد کی مفت خفگی اٹھاؤں۔"      ( ١٩٠٠ء، خورشید بہو، ٨٧ )
٦ - [ مجازا ]  پیدا کردہ، نتیجہ۔
'انسٹیٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق بھی اس کے بچے تھے۔"      ( ١٩٣٦ء، خطبات عبدالحق، ٣٣ )
  • young (of any creature);  child
  • infant
  • babe
  • little one;  youngster
  • youth
  • lad
  • boy;  thoughtless
  • simple or in experienced person;  young plant
  • sapling