اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - آزار پہنچانا، طعن و طنز، آزمائش، بگاڑ، تنازع۔
لاگ کیوں برق کو میرے دل بیتاب سے ہے چھیڑ بجلی کو عبث قطرۂ سیماب سے ہے
( ١٩٣٦ء، صرفنا تمام، ٩٦ )
٢ - ٹھٹھا، مخول، ہنسی، دل لگی۔
پوچھ زاہد نہ مجھ سے عشق کا حال چھیڑ اچھی نہیں ہے مذہب کی
( ١٩٢٧ء، شاد عظمی آبادی، میخانہ، الہام، ٢٤٦ )
٣ - نوک جھونک، تنازعہ، تکرار، لڑائی، معرکہ۔
"سنہ ٥٧ء کے بعد سے رفتہ رفتہ زبان کی چھیڑ شروع ہوتی ہے"
( ١٩٣٨ء، خطبات عبدالحق، ١٥٠ )
٤ - چھونا، مساس، ملنے اور لگنے کا عمل۔
تتلیوں کی چھیڑ پھولوں سے چلی اس طرح لپٹیں کہ بس توبہ بھلی
( ١٩٤٥ء، عروس فطرت، ٧١ )
٥ - کسی باجے کی حرکت، مضراب زنی؛ مچھلی کا شت کو حرکت دینا۔ (فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)
٦ - نشتر زنی۔
خوگر عشق کو آتا ہے مزا چھیڑوں میں تیرے زخموں کو بھی سمجھا دل نا کام لذیذ
( ١٩١١ء، نذر خدا، ٥٧ )
٧ - اشتعال انگیزی، رخنہ اندازی، موشگافی۔
"سرہڈسن تو طرح طرح کی چھیڑ سے شاہنشاہ کو ایسا دق کرتا تھا کہ . اور گراں گزرے"
( ١٩٠٧ء، نپولین اعظم، ٥، ٣٠٠ )
٨ - [ تصوف ] تحریک، جوش، جذبہ، انسانی خواہشات۔
"جس وقت سلطان نفس کا عقل پر مبسوط ہو جاتا ہے تو نفس کی سعی و کوشش فاسد ہو جاتی ہے اور اس کی چھیڑیں مذموم ہو جاتی ہیں"
( ١٨٨٨ء، تشنیف الاسماع، ٧٣ )
٩ - رقص و موسیقی کی ابتدا، راگ کی الاب۔
ساز سے تیرے ہی چھیڑوں نے نکالے نغمے تیری آواز نے رکھ لی ہے ایک تار کی لاج
( ١٩١١ء، نذر خدا، ٥٤ )
١٠ - [ طب ] پٹھوں کا کھنچاؤ، حرکت، جنبش۔
"اعضائے تناسل میں ایک قسم کی چھیڑ پیدا ہو کر فوراً تندی پیدا ہوجاتی ہے"
( ١٩١١ء، نشاط عمر، ١٠٠ )
١١ - ابتدائے فساد، کاوش بھری باتوں کی ابتدا۔
کیوں پہلے آر سی نے دکھائی کہ تم نے آنکھ کس کی طرف سے چھیڑ کی یہ ابتدا ہوئی
( ١٨٨٨ء، صنم خانۂ عشق، ٢٧٦ )