تیغ

( تیغ )
{ تیغ (ی مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم آلہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : تیغیں [تے + غیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : تیغوں [تے + غوں (و مجہول)]
١ - تلوار، شمشیر۔
 کیا ڈر مجھے فرعون کا، ہور ساوی افسون کا موسٰی عصا زیتون کا، ہے تیغ ربانی مجھے      ( ١٦١١ء، قلی قطب شاہ، کلیات، ١٠:١ )
٢ - [ مجازا ]  کاٹ کرنے والی کوئی شے۔
 تیغ کا گرنا، دم نہ نکلنا، ہاتھ جھٹکنا، بانکی ادا وقت کی خوبی، میرا تڑپنا، ان کی ندامت، ہائے ستم      ( ١٩٢٧ء، شاد، مے خانۂ الہام، ١٧٧ )
٣ - گنڈاسے کا دھاردار آہنی حصہ؛ ہنسیا، مچھلی کی کھال چھیلنے اور کاٹنے کا کسی قدر خمیدہ تیز دھار والا اوزار؛ رندے کا اوپر نکلا ہوا حصہ۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 39:1)
٤ - [ تصوف ]  اس سے مراد صفت جلالی ہے۔ (مصباح التعرف)
  • a sword
  • scimitar;  dagger