شمشیر

( شَمْشِیر )
{ شَم + شِیر }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں من و عن داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم آلہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : شَمْشِیریں [شم + شی + ریں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : شَمْشِیروں [شَم + شی + روں (و مجہول)]
١ - شیر کے ناخن کی شکل کا ایک آہنی ہتھیار؛ خمیدہ تلوار، تلوار جو بیچ سے خمدار ہو، کٹار۔
"ایک برہنہ آدمی شمشیر لیے ہوئے مجھ پر وار کرنے کے لیے لپکا۔"      ( ١٩٧٨ء، براہوی لوک کہانیاں، ١١٣ )
٢ - گنجفہ کی بڑی بازیوں میں سے ایک بازی کا نام اس کے پتے کا رنگ سبز اور علامت تلوار کی ہوتی ہے۔ اس کا میر شمس کہلاتا ہے۔ (ماخوذ: جامع اللغات؛ اصطلاحاتِ پیشہ واراں، 160:6)
  • A scimitar
  • sword