آگندہ

( آگَنْدَہ )
{ آ + گَن + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


آگندن  آگَنْدَہ

فارسی زبان میں مصدر 'آگندن' سے علامت مصدر 'ن' گرا کر'ہ' بطور لاحقۂ حالیہ تمام لگانے سے 'آگندہ' بنا۔ فارسی میں صیغہ حالیہ تمام ہے، اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٤٩ء میں "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع استثنائی   : آگَنْدَگان [آ + گَن +دَگان]
جمع غیر ندائی   : آگَنْدوں [آ + گَن + دوں (و مجہول)]
١ - آلودہ، لتھڑا ہوا۔
"تو اپنی داڑھی مونچھ کو گرد و غبار سے آلودہ رکھ اور جسم کو اشیائے گندہ سے آگندہ تاکہ ریا کا خیال نہ آوے۔"      ( ١٨٤٥ء، احوال الانبیاء ٨٦:١ )
٢ - بھرا ہوا، مملو، پُر۔
 تن لرزنے لگے دل خوف سے آگندہ ہو دیو بھی دیکھ کے قوت مری شرمندہ ہو      ( ١٩٣٣ء، عروج، عروج سخن، ٢٢٣ )
٣ - بھرا بھرا، فربہ۔
 جتنے اوصاف ہیں گھوڑے کے وہ ان سب میں ہے فرد سخت سُم نرم دم آگندہ سرین پہن کفل      ( ١٨٧٢ء، مراۃ الغیب، ٣٩ )