عاصی

( عاصی )
{ عا + صی }
( عربی )

تفصیلات


عصی  عاصی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور صفت نیز اسم مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٦٣٩ء کو "طوطی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : عاصِیوں [عا + صِیوں (و مجہول)]
١ - گناہ گار، خطا کار، مجرم، پاپی۔
"ویسے عاصی گہنگار ہوں، کیا میں کیا میری دعا۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالامکھ، ١٥٥ )
٢ - باغی، نافرمان۔
"راجپوتوں نے راپڑی میں فساد مچا دیا اور عاصی ہوگئے۔"      ( ١٩٢٧ء، اورینٹل کالج میگزین، اگست، ٥٠ )
٣ - اردو میں بطور انکسار ضمیر واحد متکلم "میں کی جگہ مستعمل۔"
"مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ پڑھے لکھے اظہار تشریح کے لیے نام کے ساتھ عاصی یا گہنگار یا آثم لکھتے ہیں۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق والفرائض، ١٣٦:٣ )
٤ - [ طب ]  معدہ جس پر مسہل کی دوا اثر نہ کرے نیز وہ رگ جو فصد میں خون نہ دے۔ (نوراللغات؛ مخزن الجواہر)
  • Disobedient
  • rebellious;  criminal