رسید

( رَسِید )
{ رَسِید }
( فارسی )

تفصیلات


رسیدن  رَسِید

فارسی زبان میں رسیدن مصدر سے حاصل مصدر ہے اردو میں اصل مفہوم اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا سب سے پہلے ١٧٣٩ء میں "کلیاتِ سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : رَسِیدیں [رَسی + دیں (ی مجہول)]
جمع استثنائی   : رَسِیدات [رَسی + دات]
جمع غیر ندائی   : رَسِیدوں [رَسی + دوں (و مجہول)]
١ - کسی (شخص یا شے) کے پہنچنے یا وصول ہونے کا عمل نیز وہ نوشتہ یا زبانی اطلاع جس میں پہنچنے یا وصول ہونے کا مضمون ہو۔
 لو سنو لکھتے ہیں وہ خط میں یہ الفاظِ رسید چل کے ہم گھر سے ترے غیر کے گھر تک پہنچے      ( ١٩٠٣ء، سفینۂ نوح، ٢٢٥ )
٢ - [ قانون ]  رقم یا سامان وغیرہ کی وصولیابی کی باضابطہ تحریر جس میں وصول پانے والے کے دستخط۔
"دیوان جی وہ جو اس روز آپ کے کپڑے وغیرہ دے کر اور مختارعام سے رسید لے کر گئے اس کے بعد پھر نظر ہی نہیں پڑے۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالامکھ، ١٦١ )
٣ - پتا، خبر، سراغ۔
"کم سے کم گھر سے روانہ ہونے تک تو کسی صاحبزادے کی رسید نہیں آئی تھی۔"      ( ١٩٢١ء، انور، ١٣٤ )
٤ - جواب (سوال کا)۔
"بیٹی جا بیگموں کو سلام کر، ہنس بول، پر گم سم بیٹھی ہے اور رسید ہی نہیں۔"      ( ١٩٢٢ء، انارکلی، ١٩ )
٥ - گنجفہ کی بازی میں کسی کو سر پہنچنا۔ (نوراللغات)
  • acknowledgment of arrived or receiving
  • receipt