داخلہ

( داخِلَہ )
{ دا + خِلَہ }
( عربی )

تفصیلات


دخل  داخِل  داخِلَہ

عربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم 'داخل' کے ساتھ 'ہ' بطور لاحقہ نسبت بڑھانے سے 'داخلہ' بنا۔ اردو میں بطور اسم نیز گاہے بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٣٦ء کو "ریاض البحر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - اندرونِ ملک کا، ملکی، جیسے: وزارتِ امور داخلہ (خارجہ کی ضد)۔
"وہ انتہائی جذبات کے عالم میں مڑا اور وزارتِ داخلہ کے سارے کاکنوں کو باری باری پیار کیا۔"      ( ١٩٧٠ء، قافلہ شیہدوں کا، ٥٥:١ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : داخِلے [دا + خِلے]
جمع   : داخِلے [دا + خِلے]
جمع غیر ندائی   : داخِلوں [دا + خِلوں (و مجہول)]
١ - ایسی دستاویز جس کے ذریعے کہیں داخل ہونا ممکن ہو۔ (ماخوذ: نوراللغات)
٢ - روپے وغیرہ کی آمد کا اندراج، وصول یا بی کی تحریری یادداشت۔
 سرکار کے خزانے میں اک روپیہ نہیں دفتر میں پیش کارکے ہیں داخلے بہت      ( ١٨٥٨ء، تراب، کلیات، ٧٢ )
٣ - رجسٹر یا دوسرے کاغذات وغیرہ میں کسی طرح کا اندراج۔
"بہت سے زلزلے غالباً ایسے مقامات پر واقع ہوے ہوں گے جہاں متمدن انسان کا گزر نہیں ہوا ہے یا سمندر کے اندر واقع ہوئے ہوں گے جن کا داخلہ ملنا محال ہے۔"      ( ١٩١٦ء، طبقات الارض، ٢٦ )
٤ - مال گزاری، محصول، چنگی یا دوسری رقموں وغیرہ کی وصولیابی کی رسید۔ (فرہنگِ آصفیہ)
٥ - (اسکول، کالج یا کسی تربیتی ادارے میں) نام لکھنا یا لکھوانا۔
"کسی ایسے طالب علم کو ایم۔اے میں داخلہ نہیں دیا جاتا جس نے انٹر اور بی۔اے میں تعلیم بحیثیت اختیاری مضمون نہ پڑھا ہو۔"      ( ١٩٨٠ء، ابتدائی لائبریری سائنس، ١٧٥ )
٦ - دہانہ، منھ، دروازہ۔
"مڈبار، کے داخلہ پر ایک سرخ رنگ کی بڑی کشتی کھڑی ہے۔"      ( ١٩١٧ء، سفرنامۂِ بغداد، ١٢ )
٧ - کسی جگہ پہنچنا یا مکان یا شہر وغیرہ میں داخل ہونا، آمد، وَرود۔
"ہجرت کے موقع پر جب مدینہ میں آپۖ کا داخلہ ہورہا تھا، انصار کی چھوٹی چھوٹی لڑکیاں خوشی سے دروازوں سے نکل کر گیت گا رہی تھیں۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٣٨١:٢ )
٨ - دخل، گزر، باریابی۔ (جامع اللغات)
٩ - سپردگی، حوالگی، شمولیت، شرکت، روپیہ کی ادائیگی۔ (جامع اللغات، پلیٹس)۔
١٠ - امتحان میں شریک ہونے کی فیس یا فارم وغیرہ۔
"ہمارے داخل چا چُکے تھے . ہمیں امتحان تک چھٹیاں ہونے والی تھیں۔"      ( ١٩٧٦ء، بوئے گل، ٢٠٣ )