ثقیل

( ثَقِیْل )
{ ثَقِیْل }
( عربی )

تفصیلات


ثقل  ثَقِیْل

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی معنی اور حالت میں ہی بطور اسم صفت اور گاہے بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٤١ء میں "شاکر ناجی" کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - ایک درد کا نام جس سے وہ عضو بھاری معلوم ہوتا ہے جس میں درد ہوتا ہے۔
 خس و حکاک لازع، رخوہ و ثاقب ثقیل جب تلک امراض مہلک کا اطبا میں ہو نام      ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٢٧٤ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - بھاری، بوجھل، وزنی، گراں۔
"ان کے مقابلے پر عمولی مادے کو ثقیل کہا جاتا ہے۔"      ( ١٩٤٥ء، طبیعات کی داستان، ٢٢٠ )
٢ - [ طب ]  جو آسانی سے ہضم نہ ہو دیر تک معدے میں ٹھہرے اور گرانی یا بدہضمی پیدا کرے، دیر ہضم۔
"دعوتوں میں ثقیل غذائیں کھا لیتا ہوں۔"      ( ١٩١٣ء، مکاتیب شبلی، ٤٤:٣ )
٣ - [ مجازا ]  مشکل، دشوار، زحمت طلب امر (وغیرہ)
"تعجیل اس امر ثقیل میں اس قدر ہے کہ شام و پگاراہ کو طے کرتے ہیں۔"      ( ١٨٥٥ء، غزوات حیدری، ٣٨٧ )
٤ - ٹھوس (رقیق کی ضد)۔
"البومین سیال اور ثقیل دونوں صورتوں میں ہوتا ہے۔"      ( ١٩١٧ء، شام زندگی، ١٠٨ )
٥ - (معانی و بیان) وہ (لفظ یا فقرہ) جسے زبان روانی سے ادا نہ کر سکے یا ذوق سلیم کو ناگوار ہو، غیر سلیس، بدقت ادا ہونے والا (حرف، لفظ)۔
"الفاظ بھی دو قسم کے ہیں بعض شستہ، سبک شیریں اور بعض ثقیل بھدے ناگوار۔"      ( ١٩٠٤ء، مقالات شبلی، ٧:٢ )