سانپ

( سانْپ )
{ سانْپ (ن غنہ) }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٤٣٥ء کو "کدم راؤ پدم راؤ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : سانْپوں [ساں + پوں (واؤ مجہول)]
١ - چکنی رسی کی طرح کا بغیر ہاتھ پاؤں یا ٹانگوں اور پنجوں کے، پیٹ کے بل رینگنے والا موذی جانور جس کی دم پتلی اور جسم چکنا اور پھسلنے والا ہوتا ہے اور جس کی بعض اقسام زہریلی ہوتی ہیں، ناگ، افعی، مار۔
 اک اپنی کشش حسن میں ہے سانپ کے لیکن جو چیز چمکتی ہے وہ زر تو نہیں ہوتی      ( ١٩٨٤ء، چاند پر بادل، ١١١ )
١ - سانپ بچھو سمجھنا
زہریلا خیال کرنا، خطرناک اور تکلیف دہ سمجھنا، مہلک تصور کرنا، ناجائز سمجھنا۔ حرام سمجھنا۔ سانپ بچھو سمجھو اس کو بھیج دو صاحب مجھے میرے میکے کا تمہارے گھر میں جو اسباب ہو      ( ١٨٧٩ء، جان صاحب، دیوان، ١٧١ )
٢ - سانپ چھاتی پر پھرنا
رشک و حسد آنا، رشک و حسد ہونا، حد درجہ رنج ہونا، صدمہ ہونا۔ پھر گیا سانپ رقیبوں کی وہیں چھاتی پر ہاتھ سے میرے وہ جب ہار پہن کر پھولے      ( ١٨٣٨ء، شاہ نصیر (مہذب اللغات) )
٣ - سانحہ گزرنا
حادثہ پیش آنا۔"بارہ بنکی میں جو سانحہ گزرا اس کا مختصر حال یہ ہے کہ اکے پر سے گر پڑا۔"      ( ١٩٣٢ء، جگر مراد آبادی، آثار و افکار، ٨٨ )
١ - سانپ کا بچہ سنپولیا
ظالم کا بیٹا ظالم ہوتا ہے، آخرش بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی ہوتا ہے۔"اس نے چڑ کر کہوا "میں کسی کو نہیں جانتی مور سب کے سب قصائی تھے اور تو سانپ کا بچہ سنپولیا ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، سفر مینا، ٥٩ )
٢ - سانپ ڈسے
(عور، بددعا) سانپ کاٹے۔ ڈھٹائی تو دیکھو کہ آئی نہ لاج ڈسیں سانپ اس کو گزے اس پہ کاج      ( ١٩١٠ء، اسم اور زہرہ، ٧ )
١ - سانپ کا کاٹا پانی نہیں مانگتا
(سخت زہریلے) سانپ کا ڈسا ہوا فوراً مر جاتا ہے۔ (ماخوذ: جامع الامثال، نور اللغات)
  • snake
  • serpent