خدشہ

( خَدْشَہ )
{ خَد + شَہ }
( عربی )

تفصیلات


خدش  خَدْشَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨١٠ء کو "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : خَدْشے [خَد + شے]
جمع   : خَدْشے [خَد + شے]
جمع استثنائی   : خَدْشات [خَد + شات]
جمع غیر ندائی   : خَدْشوں [خَد + شوں (و مجہول)]
١ - فِکر، اندیشہ، کھٹکا، دھڑکا۔
"ناصر کو اس بات کا خدشہ ہے کہ رانی کا باپ آجائے گا"      ( ١٩٧٥ء، خاک نشین، ٦٩ )
٢ - خطرہ، ڈر۔
"اس بات کا خدشہ ظاہر ہوا کہ بیراج کی تعمیر سے مضافات کے علاوہ کوئی سیم و تھور کا مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے"      ( ١٩٧٧ء، پاکستان کا معاشی جغرافیہ، ٥٦ )
٣ - شک و شبہ، خلش، قباحت۔
"خلاصتہ التواریخ کے بیان سے کسی قسم کا شبۂ پیدا نہیں ہوتا اور نہ میرے نزدیک کوئی خدشہ پیدا ہوتا ہے"      ( ١٩١٨ء، مقالات، شیرانی، ٢١٥ )
٤ - رگڑ، کھرونچ، نشان۔
"میری احتیاط پر آفرین کہو کہ ایسی جانچ سنبھال کے ساتھ کنجی پھیرتا تھا کہ دونوں سوراخ خدشہ و خراش سے محفوظ رہیں"      ( ١٨٨٧ء، موعظۂ، حسنہ، ٧٢ )
٥ - [ ادبیات ]  ستم، خامی، جھول۔
"غزل میں دو جگہ کچھ خدشہ ہے اس پر آپ غور کر کے خود ہی الفاظ بدل ڈالیں"      ( ١٩٠٣ء، مکتوبات حالی، ٢٦ )