خوف

( خَوف )
{ خَوف (و لین) }
( عربی )

تفصیلات


خوف  خَوف

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بھی اسم مستعمل ہے۔ ١٦٢٥ء کو "بکٹ کہانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - خطرہ، ڈر، بیم، ہول۔
 کسی کو خوفِ خدا ہے کسی کو خوف صنم یہ اپنی اپنی طبعیت ہے بات ایسی ہے      ( ١٩٨٣ء، حصار انا، ٣٥ )
٢ - ہیبت، رعب، دہشت۔
"ان پہاڑوں میں اور ان سڑکوں پر ایسا خوف ملتا ہے ایسی دہشت ملتی ہے۔"      ( ١٩٨١ء، سفر در سفر، ١٥ )
٣ - وعید، دھمکی، آگاہی؛ پیش گوئی۔
"جب کوئی خوف اور خشیت کی آیت آتی، خدا سے دعا مانگتے اور پناہ طلب کرتے۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٦٠:٢ )
٤ - فکر، خدشہ، اندیشہ۔
"جو صدمہ اور اندیشہ کسی مصیبت پر اس کے ہونے سے پہلے ہوتا ہے اس کو خوف کہتے ہیں۔"      ( ١٩٣٢ء، تفسیر القرآن الحکیم (علامہ شبیر احمد عثمانی)، ١٠ )
٥ - لہنگے یا گھاگرے کی طرح پیٹی کوٹ نما لباس جو چھال یا چمڑے کی دھجیوں سے ایک جھالر بنائی جاتی اور وہ جھالر کمرے کے گرد لپٹی رہتی یہ لباس خاص کنواری لڑکیوں کا تھا اور دوشیزگی کی علامت سمجھا جاتا تھا؛ سایہ۔
"اس کا کام تھا کہ خوف کو کمرے کے گرد لپیٹے ہوتی اور دوشیزگی کی سادگی اس کے چہرے کا زیور ہوتی۔"      ( ١٩٠٠ء، ایام عرب، ٩١:٢ )
٦ - [ تصوف ]  خوف اسے کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو امر مکروہ سے بچائے اور بجآوری احکام حق میں عبودیت کے ساتھ سر گرم رہے۔ (مصباح التعرف، 115)
  • Fear
  • dread
  • terror