رمیدہ

( رَمِیدَہ )
{ رَمی + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


رَمِیدَن  رَمِیدَہ

فارسی میں رمیدن مصدر سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل مفہوم اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٨٧٥ء میں دبیر کے "دفترِ ماتم" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - بھاگا ہوا۔ جو فرار کر گیا ہو۔
یہ زیرِ شجر آہوانِ رمیدہ کھڑے سوچتے ہیں      ( ١٩٧٩ء، شیخ ایاز، ٢٣ )
٢ - پریشان، سرگرداں، وحشت زدہ، متوحش، حیران۔
 دل عزیز کی بستی نہیں ہوئی برباد مگر نگاہِ رمیدہ کی ترکی تازی سے      ( ١٩٢٢ء، انجم کدہ، ٥٦ )
٣ - الگ، جدا، دور۔
"صوفی اوپر راہِ راست نیک کے ہیں جب تک ایک دوسرے سے نفور اور رمیدہ رہیں اور جب کہ ایک دوسرے کے ساتھ ساکن ہوویں اور صلح کریں ان میں کچھ خیر باقی نہ رہے"      ( ١٩٢٤ء، تذکرۃ الاولیا، ٥٠١ )
  • گُریْزاں
  • خَوْفْزَدَہ
  • مُتُنَفَّر
  • Terrified
  • scared
  • horror-struck
  • disturbed
  • afflicted