پھرکی

( پِھرْکی )
{ پِھر + کی }

تفصیلات


پھرکی  پِھرْکی

ہندی سے اردو میں اصل معنی اور صورت کے ساتھ داخل ہوا۔ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٨٨٧ء کو "جامِ سرشار" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : پِھرْکِیاں [پِھر + کِیاں]
جمع غیر ندائی   : پِھرْکِیوں [پِھر + کِیوں (و مجہول)]
١ - مدور (گول) چیز جو بیج کی کیلی (محور) پر حرکت کرے، چرخی۔
"بڑی مشکل سے بادلے پر چڑھ کر پھرکی میں رسی ڈالی"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٧٤:٧ )
٢ - بچوں کا کھلونا (مدور تراشا ہوا چمڑا جس کے بیچ میں سوراخ ہوتا ہے جو دھاگا ڈال کر نچایا جاتا ہے)۔
"بچوں میں پھرکیوں سے کھیلنے کا رواج تھا"      ( ١٩٢٨ء، سلیم، افاداتِ سلیم، ٢٢٤ )
٣ - چکئی۔
 ہو گئے ہیں کتنے بے پروا زمانے سے کہ ہم سمجھے ہیں لڑکوں کی پھرگی گردشِ ایام کو      ( ١٩٢٥ء، شوقِ قدوائی، دیوان، ٢٠٦ )
٤ - چمڑے کا ٹکڑا جس پر تکلا گردش کرتا ہے۔ (نوراللغات)
٥ - چرخی کی مدور لکڑی۔
"کپڑا بننے کی کلوں میں بڑی الجھن ہوتی ہے پھرکیاں . ایسی پھرتی سے گردش کرتی ہیں کہ نظر نہیں جمتی"    ( ١٩٠٣ء، لکچروں کا مجموعہ، ٤٧٠:٢ )
٦ - مدور لکڑی جسے تارکش استعمال ہیں۔ (نوراللغات)
٧ - گیندے کے پھول کی ایک قسم۔ (نوراللغات)